نئی نسل کا پرانی نسل کو خوشگوار چیلنج (ساجد خان)

پاکستان میں بروز دس رمضان سندھ کے حکمران راجہ داہر کی یاد منائی گئی، یہاں تک کہ ٹویٹر پر “راجہ داہر ہمارا ہیرو” ٹاپ ٹرینڈ رہا۔ یہ خبر جہاں حیران کن تھی وہیں خوش آئند بھی ہے کہ اب ہماری نسل تاریخ کے دونوں پہلو دیکھ کر فیصلہ کرنے کے قابل ہو رہی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اوائل میں فیصلہ کرنے میں غلطیاں ہوں لیکن یہ روایت خود ہی غلطیوں کو سدھارنے میں مدد فراہم کرے گی۔

ہمارا المیہ رہا ہے کہ مسلمان خصوصاً برصغیر کی تاریخ کو انتہائی ظالمانہ طریقے سے اس طرح مسخ کیا گیا ہے کہ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے بلکہ سچ کو مٹانے کی پوری کوشش کی گئی۔ راجہ داہر میرے لئے نا ہی ہیرو ہے اور نا ہی ولن کہ میں اس کا دفاع کروں لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ظاہری طور پر راجہ داہر مظلوم اور محمد بن قاسم ظالم نظر آتا ہے کیونکہ حملہ راجہ داہر نے نہیں کیا تھا بلکہ صرف اپنی دھرتی کا دفاع کیا تھا۔

راجہ داہر کی بدقسمتی کہ وہ جنگ ہار گیا اور محمد بن قاسم کی خوش قسمتی کہ وہ فاتح رہا ورنہ آج برصغیر کی تاریخ میں محمد بن قاسم انتہائی ظالم اور سفاک شخص نظر آتا، اس لئے اس معاملہ میں بھی یہی ہوا کیونکہ تاریخ ہمیشہ فاتح لکھتا ہے خواہ وہ ظالم ہی کیوں نا ہو مگر اسے مورخ انصاف پسند بتاتا ہے۔ اس سارے موضوع میں جو بات میرے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ شاید پہلی بار مطالعہ پاکستان میں دکھائے گئے ہیرو کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ولن کو عزت بخشی گئی۔ ہماری بدقسمتی تھی کہ پچھلی نسل کو باقاعدہ منظم طریقے سے بند دماغ قوم کی طرح تیار کیا گیا۔

مطالعہ پاکستان پر اندھا یقین کرنا ہے۔ سوال کرنا جرم ہے۔ مذہبی اختلافات پر بحث نہیں کر سکتے۔ مولوی کی کہی بات پر اعتراض نہیں کر سکتے۔ جو مخصوص ادارے ہیں، وہ معصوم ہیں۔

یہ بند دماغ نسل اتنی سفاک تھی کہ پاکستان کے لئے جانیں قربان کرنے والے بہت سے سپوتوں کو اس لئے تاریخ سے نکال باہر کیا کیونکہ وہ غیر مسلم تھے۔ یہ مثال ہماری گزشتہ نسل کے چند شرمناک کارناموں میں سے ایک ہے۔

ایسے حالات ماضی میں نہیں تھے۔ قوم کے ہیرو کا مذہب نہیں دیکھا جاتا تھا بلکہ خلوص جانچا جاتا تھا۔ باقاعدہ مذہبی مناظرے ہوا کرتے تھے، ہر مکتبہ فکر کے مناظر مشہور تھے، ان کے شہر یہاں تک کہ رہائش تک معلوم ہوا کرتی تھی مگر نا کبھی ان پر کفر و توہین کے فتویٰ لگے اور نا کبھی ان کو گھر کے باہر گولیاں ماری گئیں۔

مناظر سر عام سفر کیا کرتے تھے۔ جہاں مناظرہ ہوا کرتا تھا وہاں دونوں اطراف کے سینکڑوں افراد شامل ہوا کرتے تھے۔ مناظر اپنے اپنے موقف پر دلائل دیا کرتے تھے مگر سامعین خاموشی سے سنا کرتے تھے اور پھر اختتام پر پرامن منتشر ہو جایا کرتے تھے اور ان دلائل کی روشنی میں حق اور باطل کو جانچنے کی کوشش کرتے تھے۔

آج کی نسل شاید اس بات پر یقین نا کرے کہ یہ مناظرے نا صرف اسلام کے مختلف مسالک کے درمیان ہوتے تھے بلکہ مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان بھی سر عام مناظرے ہوا کرتے تھے۔ اب آپ تصور کریں کہ اس طرح کے مناظرے میں کیا ہوتا ہو گا۔

مسیحی سب کے سامنے کہتے ہوں گے کہ حضرت محمدؐ نبی نہیں ہیں، اسلام مذہب سچا نہیں ہے جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور عیسائیت سچا مذہب ہے۔ آج اگر کوئی عیسائی ایسی باتیں کرے تو اس پر واجب القتل کا فتویٰ لگ جائے گا۔ اس کے گھر پر حملہ بھی ہو سکتا ہے اور اگر وہ کسی غازی کے ہاتھوں سے محفوظ رہ گیا تو اس کے پاس سوائے غیر ملک جانے کے علاوہ جان بچانے کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہو گا لیکن تب ایسا نہیں ہوتا تھا بلکہ مسلمان سکون کے ساتھ بیٹھ کر دونوں فریقین کے موقف سنا کرتے تھے کیونکہ وہ شعور رکھتے تھے کہ یہی اختلاف موجود ہیں تبھی تو دو مختلف مذاہب ہیں۔

مسلمان اور قادیانی مناظرہ بھی ہوا کرتا تھا لیکن آج تک کسی کتاب میں ایسا نہیں لکھا گیا کہ مناظرے کے دوران کسی مسلمان نے جذبات میں آ کر قادیانی مناظرین پر حملہ کر دیا ہو۔ سب اچھا چل رہا تھا پھر ضیاء الحق جیسا منافق شخص اورنگزیب عالمگیر کی طرح اقتدار پر قابض ہو گیا اور اس کی طرح ہی اپنے قبیح فعل کو اسلام کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی۔ بس فرق یہ تھا کہ اورنگزیب عالمگیر ٹوپیاں بناتا تھا جبکہ ضیاء الحق ٹوپیاں پہناتا تھا اور یوں ایک بند دماغ نسل تیار کرنے کی تیاری شروع کر دی گئی۔

مناظروں پر پابندی عائد کر دی گئی، جس سے گھٹن زدہ ماحول پیدا ہو گیا، ایک لاوا ابلنے لگا جو پہلے بات چیت اور علمی بحث کے ذریعے ٹھنڈا رہتا تھا۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہر مکتبہ فکر کے علماء کو فری ہینڈ مل گیا، وہ مخالف فرقہ کے خلاف جو جھوٹ اور پروپیگنڈہ کرتے رہے انہیں چیلنج یا جواب دینے کے لئے کسی کو اجازت نہیں تھی۔ جس کے بعد سنی سنائی باتوں پر یقین کیا جانے لگا۔

آج آپ بڑے بزرگ علماء کرام سے اگر اہل تشیع کے بارے میں سوال کریں تو وہ کہتے نظر آتے ہیں کہ شیعوں کی مسجد نہیں ہوتی بلکہ امام باڑے ہوتے ہیں حالانکہ خود دیکھ چکے ہیں کہ ماضی میں متعدد مرتبہ اہل تشیع کی مساجد میں نماز کے دوران خودکش حملے کئے گئے یا کہا جاتا ہے کہ شیعہ قرآن چالیس پاروں کا ہے۔ یہ جھوٹی باتیں پھیلانے کے اسباب کیا ہیں، اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ اس قسم کے مولوی کو چیلنج کا خوف نہیں رہا اور وہ مخالفین کی کتب پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے مگر مناظرہ کے دور میں اگر کوئی ایسا دعویٰ کرتا اور اسے چیلنج کر دیا جاتا کہ ثابت کرو تو وہ سامنے بیٹھے سینکڑوں اہلسنت یا اہل تشیع افراد کے سامنے جھوٹا ثابت ہو جاتا اور تب اسی خوف کی وجہ سے مخالف عقائد پر عبور حاصل کیا جاتا تھا۔

ضیاء الحق کی تیار کردہ بند دماغ نسل آج بھی پاکستان پر قابض ہے جو حتی الامکان کوشش کر رہی ہے کہ وہ آنے والی نسل کو بھی اپنی طرح بند دماغ نسل میں تبدیل کر دے اور جو مزاحمت کرے اس کو دشمن سمجھو۔ اس کی ایک تازہ مثال انجینئر محمد علی مرزا ہے جس کا انداز اور موضوعات انتہائی منفرد ہیں، وہ ان موضوعات پر بھی کھل کر بحث کرتا ہے جن پر سوال اٹھانا ہی گناہ تصور کیا جاتا تھا، نئی نسل گناہ یا توہین کے فتووں کے خوف سے بالاتر ہو کر ان موضوعات پر بات کرنا چاہتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ نوجوان نسل بہت تیزی سے محمد علی مرزا کی طرف متوجہ ہوئی۔

میرے سوشل حلقہ احباب میں تمام مکاتب فکر کے دوست موجود ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ شیعہ ہو، بریلوی ہو یا دیوبندی، تمام افراد محمد علی مرزا کے لیکچرز کو پسند کرتے تھے حالانکہ کبھی وہ اہل تشیع کے کسی عقیدہ کے خلاف بحث کیا کرتا تھا، کبھی بریلوی مسلک کے عقائد موضوع ہوا کرتا تھا تو کبھی دیوبندی عقائد مگر چند باتوں پر اختلاف ہونے کے باوجود سب افراد محمد علی مرزا کے طرز کو پسند کرتے تھے کیونکہ وہ علمی دلائل دیتا تھا مگر اس پر بند دماغ نسل کے مولوی طبقہ کو سخت اختلاف تھا کہ وہ کسی مخصوص مکتبہ فکر کا جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے ذریعے دفاع یا تنقید کرنے کے بجائے صرف قرآن اور صحیح احادیث و تاریخ کے مطابق سب پر تنقید یا دفاع کیوں کرتا ہے۔ محمد علی مرزا بند دماغ معاشرے کے خلاف پہلا قطرہ ثابت ہوا ہے جو کہتا ہے کہ مولوی کی بات پر اندھا یقین مت رکھو بلکہ ہر معاملہ کے دونوں پہلو دیکھنے کی عادت اپناؤ اور مخالف کے موقف کو سنو، کھلے ذہن کے ساتھ تدبر کرو خواہ وہ غلط ہی کیوں نا ہو مگر تم خود فیصلہ کرو کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔

راجہ داہر کی جب برسی منائی گئی تو مجھے محسوس ہوا کہ بند دماغ نسل کو پہلی بار کھل کر چیلنج کا سامنا ہے اور پرانی نسل دفاعی پوزیشن پر نظر آئی، گالیاں، کفر کے فتویٰ اور بدتمیزی کے باوجود وہ کمزور پوزیشن پر نظر آئے۔ یہ بند دماغ معاشرے کے خلاف دوسرا قطرہ تھا اور اب محسوس ہو رہا ہے کہ بارش قریب ہے جس سے ماحول میں پھیلی آلودگی مٹ جائے گی، گھٹن زدہ ماحول میں بہار آنے کی امید ہے، جس سے معاشرہ نکھر جائے گا۔

ایک وقت آئے گا جب ہمارے معاشرہ میں سوال کو جرم یا کفر نہیں سمجھا جائے گا اور وہ دن بند دماغ نسل اور ضیاء الحق کی موت کا دن ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں