حضرت علیؑ، معراج کردارِ انسانی…! (ڈاکٹر سید نیاز محمد ہمدانی)

حضرت علی علیہ السلام کو امت اسلامی میں نمایاں ترین مقام حاصل ہے۔ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر انہیں اپنا امام ،پیشوا اور مقتدا مانتے ہیں اور ان کے فضائل و کمالات کے معترف ہیں۔ رسول اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک سے جو فضائل حضرت علی علیہ السلام کے لئے بیان ہوئے ہیں وہ کسی اور کے لئے بیان نہیں ہوئے۔ اسلامی علم و ادب کے عظیم الشان ذخیرے میں علامہ راغب اصفہانی کی کتاب ’’ المفردات‘‘ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ قرآن مجید کا کوئی عالم یا طالبعلم ایسا نہیں ہے جو اپنے آپ کو اس کتاب سے بے نیاز سمجھتا ہو۔ اس کتاب کے پہلے ہی باب کے پہلے صفحہ پر یہ حدیث مبارک میں درج ہے کہ رسول اللہ نے حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا: انا و انت ابوا ھذہ الامۃ (ترجمہ: میں اور تم اس امت کے باپ ہیں)۔ اس حدیث سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ امت کی روحانی، اخلاقی اور دینی تربیت میں روحانی باپ کا جو کردار آنحضرت نے ادا کیا وہی کردار حضرت علی علیہ السلام کا بھی تھا۔ حضرت علیؑ اور رسول اللہ کے کردار کی اس وحدت کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ آنحضرت کو حضرت علی کی ذات اور کردار پر بھر پور اعتماد تھا۔ علامہ محمد ابن عیسیٰ ترمذی اپنی مشہور و معروف کتاب ’’ جامع ترمذی ‘‘ میں باب مناقب علی ابن ابی طالب میں ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیں۔ یہ واقعہ رسول اللہ کے صحابی عمران بن حصین سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول االلہ نے ایک لشکر ایک فوجی مہم پر روانہ فرمایا اور اس کا امیر حضرت علی علیہ السلام کو مقرر فرمایا۔ اس لشکر نے اپنا مشن کامیابی سے مکمل کر لیا لیکن مال غنیمت کی تقسیم پر بعض افراد کو حضرت علی علیہ السلام کا طرز عمل ناگوار گزرا۔ اس پر چار افراد نے باہم عہد کیا کہ رسول اللہ کی خدمت میں حضرت علی علیہ السلام کے خلاف شکایت کریں گے۔ان چاروں نے ایک متفقہ بیان تیار کیا اور طے کیا کہ باری باری اس بیان کو حضور کی خدمت میں پیش کریں گے۔
جب یہ لشکر مدینہ لوٹا اور مجاہدین اسلام رسول اللہ کی خدمت میں شرفیاب ہوئے توان میں سے ایک نے کھڑے ہو کر رسول اللہ کی خدمت میں حضرت علی علیہ السلام کے خلاف اپنی شکایت پیش کی۔ رسول اللہ نے اس کی بات سن کر اس سے منہ موڑ لیا۔ پھر دوسرا کھڑا ہوا اور اس نے بھی وہی شکایت بیان کی۔ آپؐ نے اس سے بھی منہ موڑ لیا۔ پھر تیسرا کھڑا ہوا اور اس نے بھی وہی شکایت بیان کی۔ آپؐ نے اس سے بھی منہ موڑ لیا۔ اب چوتھا شخص کھڑا ہوا اور اس نے بھی وہی شکایت بیان کی۔ اس پر رسول اللہ نے سب کی طرف دیکھا اور اس حال میں کہ آثار ِ غضب آپ کے چہرہ اطہر سے نمایاں تھے، فرمایا: تم علی سے کیا چاہتے ہو؟ تم علی سے کیا چاہتے ہو؟ تم علی سے کیا چاہتے ہو؟ یقینا علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد سب مومنین کے ولی ہیں۔ یہ واقعہ نہایت واضح طور پر اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کا کردار رسول اللہ کی نظر میں ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر تھا۔ اگر رسول اللہ کی نظر میں اس بات کا ذرا سا بھی امکان ہوتا کہ حضرت علی علیہ السلام کوئی غلط قدم اٹھا سکتے ہیں توکس طرح ممکن ہے کہ آپ چار صحابہ کی شکایت کو نہ صرف نظر انداز کرتے بلکہ غضب کا اظہار بھی کرتے؟ یہ واقعہ حضرت علی علیہ السلام کے معصوم ہونے کی ایک قطعی دلیل ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کا یہی درخشاں ایمانی کردار تھا جس کی وجہ سے حضور اور دیگر سب اہل ایمان آپ سے شدید محبت کرتے تھے جبکہ منافق آپ سے جلتے تھے۔ جامع ترمذی میں ہی ایک روایت ہے کہ ام المومنین حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی منافق علی سے محبت نہیں کر سکتا اور کوئی مومن علی سے دشمنی نہیں کر سکتا۔
رسول اللہ کے اسی ارشاد گرامی کی روشنی میں صحابہ کرام حضرت علیؑ سے محبت کو ایمان اور ان سے دشمنی کو نفاق کی علامت سمجھتے تھے۔ حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے کہ ہم انصار منافقین کو حضرت علیؑ سے ان کی دشمنی کی وجہ سے پہچانا کرتے تھے۔ (جامع ترمذی) ایک مرتبہ امیر شام نے حضرت سعد بن بی وقاص سے کہا:’’ آخر وہ کیا بات ہے جو تمہیں علیؑ کو برا بھلا کہنے سے روکتی ہے؟‘‘ حضرت سعد بن ابی وقاص نے کہا:’’حضرت علیؑ کے بارے میں مجھے رسول اللہ کی تین باتیں یاد ہیں جن کی وجہ سے میں کبھی حضرت علیؑ کو برا بھلا نہیں کہوں گا۔ کاش ان تین میں سے کوئی ایک بات مجھ میں پائی جاتی تو میں دنیا کی ساری نعمتیں اس پر قربان کر دیتا۔ ان تین باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ ایک جنگ میں حضور نے حضرت علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ حضرت علیؑ نے اس پر بارگاہ رسالت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جارہے ہیں؟ حضور نے ارشاد فرمایا: اے علی کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی، فرق ہے تو اتنا سا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر رسول اللہ نے فرمایا: کل میں پرچم اس مرد شجاع کو دوںگا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ ہم سب کی خواہش تھی کہ پرچم ہمیں عطا ہو مگر حضور نے حضرت علی علیہ السلام کو بلایا اور پرچم انہیں عطا فرمایا۔تیسری بات یہ ہے کہ جب آیت مباہلہ (آل عمران:60) نازل ہوئی تو رسول اللہ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا اور کہا :یا اللہ یہ میرے اہلبیت ہیں‘‘۔ (جامع ترمذی)
حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا احاطہ ممکن نہیں ہے۔ علامہ عبد الرحمن جامی نے کیا خوب کہا ہے: توصیف علی بہ گفتگو ممکن نیست کنجائش بحر در سبو ممکن نیست
ترجمہ: گفتگو کے ذریعے علی کے اوصاف کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے جیسا کہ کوزے میں سمندر کو بند کرنا ممکن نہیں ہے۔

اگر حضرت علی علیہ السلام کے اس عظیم الشان کردار اور آپ کے فضائل و کمالات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ آپ کی ذات گرامی اس عیب سے مکمل طور پر پاک اور منزہ تھی جو ہر برائی، گناہ اور ظلم کا بنیادی سبب ہوتا ہے ،یعنی حبِ دنیا۔ اس ضمن میں نہج البلاغہ میں سے حضرت علی علیہ السلام کے چند ارشادات ملاحظہ فرمائیے:
آپ فرماتے ہیں:’’اللہ کی قسم تمہاری یہ دنیا میری نظر میں خنزیر کی اس ہڈی سے بھی بدتر ہے جو ایک کوڑھی کے ہاتھ میں ہو۔‘‘(حکمت:236) خنزیر کی ہڈی فی ذاتہ ایک ایسی چیز ہے جس میں معمولی سی سوجھ بوجھ رکھنے والے انسان کو بھی کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ دوسری طرف سے اگر کسی کوڑھی کے ہاتھ میں کوئی بہت ہی نفیس اور لذیذ خوراک بھی موجود ہو تو کوئی سلیم العقل انسان اس خوراک کی طرف مائل نہیں ہو گا کجا یہ کہ خنزیر کی ہڈی ہو اور وہ بھی کوڑھی کے ہاتھ میں۔ دنیا کی بے قدری کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’اللہ کی قسم تمہاری یہ دنیا میری نظر میں اس پتے سے بھی زیادہ حقیر ہے جو کسی مکڑی کے منہ میں ہو اور وہ اسے چبا رہی ہو۔‘‘(خطبہ: 224) ایک مقام پر دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ اے دنیا ! اے دنیا !مجھ سے دور ہوجا،کیا تو مجھے فریب دینے کے لئے بن سنور کے میرے سامنے آئی ہے یا واقعی تو میری مشتاق ہے؟ وہ وقت کبھی نہیں آئے گا کہ تو مجھے فریب دے سکے۔ جا، کسی اور کو فریب دے، میں تو تجھے تین طلاقیں دے چکا ہوں جس کے بعد رجوع ممکن نہیں ہے۔ تیری زندگی بہت کوتہ، تیری حیثیت بہت پست اور تیری آرزو نہایت حقیر ہے۔ (حکمت:77)
حصول دنیا کی بے قید و شرط خواہش ہی انسان کو ہر ظلم اور گناہ پر اکساتی ہے۔ جب یہ خواہش ہی دل میں نہ رہے تو پھر ظلم کا ارتکاب کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔ لہٰذا آپ فرماتے ہیں: ’’ اللہ کی قسم! خار دار جھاڑیوں پر جاگتے ہوئے رات بسر کرنایا زنجیروں میں قید ہو کر گھسیٹا جانا مجھے اس بات سے زیادہ عزیز ہے کہ میں قیامت کے دن اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں اس حالت میں حاضر ہوں کہ میں نے اس کے کسی بندے پر کوئی ظلم کیا ہو یا کسی کا کوئی حق غصب کیا ہو۔‘‘ خطبہ:221
ایسی عظیم فکر رکھنے والا عظیم الشان انسان صر ف انسانوں ہی نہیں بلکہ کسی حقیر سے حقیر جانور پر بھی ظلم نہیں کرتا۔ چنانچہ اسی خطبہ میں آگے چل کر آپ فرماتے ہیں:’’ اللہ کی قسم ! اگر ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمان اور ان کے اندر موجود ساری دولت مجھے دے دی جائے اور اس کے عوض مجھ سے یہ تقاضا کیاجائے کہ کسی چیونٹی پر اتنا سا ظلم کر دوں کہ جَو کے چھلکے کا ٹکڑا اس سے چھین لوں تو میں ہرگز ایسا نہ کروں گا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے جس انسانی کردار کے فروغ کے لئے قرآن مجید کو نازل اور حضور کو مبعوث فرمایا تھا حضرت علی کی ذات گرامی اس انسانی کردار کی معراج ہے۔ ساری زندگی حب دنیا کی آلائش سے دور، راہ حق پر چلتے ہوئے گزاری، ایک لمحہ کے لئے بھی نہ خود ظلم کیا اور نہ کسی ظالم کا ساتھ دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ 19 رمضان کی سحر کو ابن ملجم کی زہر آلود تلوار سے مجروح ہونے کے بعد، جب بستر شہادت پر کچھ دیر کے لئے افاقہ ہوا تو اپنے بیٹوں حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: تم دونوں کو وصیت کرتا ہوں کہ تقوی کی راہ پر چلتے رہنا، دنیا کی خواہش نہ کرنا خواہ وہ تمہاری خواہش کرے اور اگر دنیا کی کوئی چیز تم سے کھو جائے تو اس پر افسوس نہ کرنا۔ ہمیشہ حق بات کہتے رہنا اور آخرت کے لئے عمل کرنا اور ظالم کے مقابلے میں ہمیشہ مظلوم کے مددگار بنے رہنا‘‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں