ضد کی عبادت اور ضد کی سیاست! (ساجد خان)

کل ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں ایک شخص نہایت غصے کی حالت میں ایک مجمع میں پرجوش تقریر کر رہا تھا۔ وہ موصوف شاید کراچی کی زینب مارکیٹ کی یونین کا صدر تھا اور یوم علی علیہ السلام کے حوالے سے آگ بگولہ ہو رہا تھا کہ ہم جلوس کو نہیں نکلنے دیں گے اور اگر جلوس نکلا تو ہم سڑکوں پر جمعہ نماز پڑھیں گے۔ اس کی تقریر پر سب نے لبیک کہتے ہوئے حمایت کی۔ عجیب مسلمان ہیں کہ آپ کو اپنے ہی خلیفہ راشد کی شہادت پر اکٹھے ہونے پر اتنا غصہ آتا ہے۔

مجھے اس غصہ کی بالکل بھی سمجھ نہیں آئی کہ ایک دکاندار کا مذہبی جلوس سے کیا مقابلہ۔ ایک ہفتہ قبل سے ریاست نے دکانیں کھولنے کی اجازت دے رکھی تھیں اور ظاہر ہے کہ آپ اپنا کاروبار چلا رہے تھے تبھی سب دکاندار اپنی دکانوں سے باہر نکل کر جلوس کے خلاف زہر اگل رہے تھے۔ آپ کسی بھی شہر کے بازار میں چلے جائیں وہاں جلوس کے شرکاء سے زیادہ افراد شاپنگ کرنے کے لئے موجود ہوں گے مگر کسی یونین کے صدر کو اس بات پر غصہ ہوتے اور دھمکیاں دیتے نہیں سنا کہ اگر اتنے زیادہ لوگ بازاروں اور سڑکوں پر نکلیں گے تو پھر ہم احتجاج کے طور پر اپنی دکانیں بند کر دیں گے یا سڑکوں پر جمعہ نماز پڑھیں گے اور نا ہی کسی شہری نے یوں آگ بگولہ ہو کر کہا کہ اگر دکانیں یوں کھلیں گی تو پھر ہم بھی زبردستی شادی بیاہ کی تقریبات کریں گے۔

آخر بازاروں میں آنے والوں میں اور جلوس میں شرکت کرنے والوں میں ایسا کیا مختلف ہے کہ ایک اکٹھ پر آپ خوش ہوتے ہیں اور دوسرے اکٹھ پر آپ کی نتھنوں سے آگ کے شعلے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔
اب یہ غصہ صرف شیعہ ہونے پر تو نہیں ہے کیونکہ اگر صرف ایسا ہوتا تو آپ کسی شیعہ گاہک کو دکان کے اندر قدم ہی نا رکھنے دیتے اور نا ہی ہر سال محرم الحرام سے پہلے اہل تشیع کو متوجہ کرنے کے لئے کالے رنگ کے کپڑوں کی نئی نئی ورائٹی لا کر اپنی دکان میں سجاتے۔

اس سے ثابت ہوا کہ زینب مارکیٹ کے صدر اور دکان داروں کو اس شیعہ سے تکلیف نہیں ہے جو شاپنگ کے لئے مارکیٹ میں داخل ہوتا ہے، ان کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ بھائی صاحب اور بہن جی کہہ کر بٹھایا جاتا ہے یعنی کہ مسئلہ عام شیعہ سے نہیں ہے بلکہ اس شیعہ سے جو جلوس امام علی علیہ السلام میں شریک ہوا بلکہ یوں کہا جائے کہ اصل مسئلہ اہلبیت علیہ السّلام کے ذکر سے ہے۔

آخر ایک تاجر کی جلوس سے ضد ہی کیا ہے اور یہ کہنا کہ اگر شیعہ جلوس نکالیں گے تو پھر ہم بھی سڑک پر جمعہ نماز پڑھیں گے۔ اگر تو سڑک پر جمعہ نماز پڑھنے کا زیادہ ثواب ہے تو آپ پہلے اس ثواب سے کیوں محروم رہے اور وہ ثواب بھی کیسا جو صرف شیعہ کی ضد اور دکھاوے میں کیا جائے۔

پاکستان بھر میں تقریباً تمام مساجد میں تراویح کی باجماعت نماز ادا کی جا رہی ہے مگر کسی نے اعتراض نہیں کیا اور ان پر اعتراض کرنا بھی نہیں چاہئے کیونکہ اگر تراویح پڑھنے کی اجازت ہے تو نماز باجماعت پڑھنے کی بھی اجازت ہے اور اگر باجماعت نماز پڑھنے کی اجازت ہے تو بازاروں میں جانے کی بھی اجازت ہے پھر یہ منافقت کہاں سے آئی کہ تم اپنی دکان پر تو سینکڑوں ہزاروں افراد اکٹھے کرنے کو جائز سمجھو مگر دوسروں کے مذہبی عقائد پر بھی انگلی اٹھاؤ۔

یہ نا ہی عبادت ہے اور نا ہی اس کا کچھ ثواب ہو گا کیونکہ آپ کی نیت صرف ضد ہے نا کہ سڑک پر نماز جمعہ ادا کر کے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا۔

میرے نزدیک ان حالات میں کوئی بھی اجتماع صحیح نہیں ہے خواہ وہ مسجد میں نماز کے لئے ہو یا تراویح کے لئے۔ جلوس کے لئے ہو یا بازاروں میں ہو لیکن جب آپ کو اپنے کاروبار کے لئے اکٹھ پر اعتراض نہیں ہے تو پھر جلوس پر اعتراض کرنے کا بھی آپ کو ہرگز حق نہیں ہے۔ یوم علی علیہ السلام پر صرف چند بڑے شہروں میں جلوس منعقد کئے گئے ورنہ سینکڑوں جلوس ایسے ہیں جو منعقد ہی نہیں کئے گئے۔

لاک ڈاؤن سے پہلے پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر ہر ضلع میں کم از کم ایک درجن مجالس ہوا کرتی تھیں لیکن گزشتہ دو ماہ کے دوران ایک مجلس بھی منعقد نہیں کی گئی لیکن اس مثبت پہلو پر کوئی توجہ دینے کے لئے تیار نہیں ہے لیکن صرف ایک دن کے چند جلوس پر آپ کو جمعہ نماز بھی یاد آ گئی اور کورونا وباء بھی سنجیدہ مسئلہ نظر آنے لگ گیا۔ دوسری طرف کرونا وائرس پر سیاست بھی ضد کی چل رہی ہے۔

ہمارے مخالف صوبہ کی تعریف کیوں کی جا رہی ہے لہذا بجائے اس کے کہ خود اچھے فیصلے کریں، دوسروں پر تنقید کرنا زیادہ ضروری سمجھا گیا۔ سب مل کر وباء سے نبٹنے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا کام جاری ہے۔

سندھ کے سکول میں گدھا بندھا نظر آ گیا تو اس کی مذمت نہیں کرنی بلکہ خیبر پختونخوا کے اسکول میں بندھے جانور ڈھونڈنا شروع کر دینا یے۔ تھر میں انسان گندا پانی پینے پر مجبور ہیں تو ہم آپ کو جنوبی پنجاب میں گندا پانی پیتے انسان دکھا رہے ہیں۔

اس ضد کی سیاست میں عوام کے مسائل حل ہونے کے بجائے دب کر رہ گئے ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پی ٹی آئی کا ورکر سندھ کے اسکول کی حالت پر بھی احتجاج کرتا اور ساتھ میں خیبر پختونخوا کے اسکول میں بھی جانور بندھے ہونے پر اپنی حکومت سے جواب طلب کرتا۔

اسی طرح پیپلز پارٹی کا کارکن جنوبی پنجاب میں گندا پانی پیتے انسانوں پر احتجاج کرتا اور تھر میں گندے پانی پر پیپلز پارٹی سے جواب طلب کرتا کیونکہ آپ ووٹ صرف اس لئے دیتے ہیں کہ آپ کو بنیادی حقوق میسر ہوں، اس طرح اپنی جماعت کے غلط رویہ کا دفاع کر کے آپ بھی ظلم نہیں برابر کے شریک ہو جاتے ہیں۔

آپ کو اگر جلوس دیکھ کر جمعہ نماز یاد آئے یا بازاروں میں ہزاروں افراد کو دیکھ کر الحمدللہ کہیں اور جلوس کو دیکھ کر استغفر اللہ کہیں تو آپ ایک اچھے مسلمان ہرگز نہیں ہیں بلکہ منافق ہیں اور اگر آپ کو اپنی سیاسی جماعت میں عیب نظر نہیں آتا اور مخالف جماعت میں عیب کے انبار نظر آتے ہیں تو آپ ہرگز اچھے انسان نہیں ہیں۔ اس منافقانہ طرز کو ختم کرنا ہو گا تبھی آپ اچھے انسان اور اچھے مسلمان بن سکتے ہیں ورنہ آپ معاشرے پر بدبو دار بوجھ ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں