نااہل حکومت کی نااہلیاں (ساجد خان)

ہم اگر موجودہ حکومت کی نااہلیاں گننا شروع کریں تو ایک طویل فہرست تیار کی جا سکتی ہے لیکن دو ایسے معاملات ہیں جن پر حکومت نے مجرمانہ غفلت کر کے عوام کی زندگیوں اور ملکی معیشت کو خطرناک حد تک داؤ پر لگا دیا ہے۔ سب سے پہلی نااہلی کرونا وائرس کی وباء ہے جس کے خلاف حکومت نے نہایت بھونڈے انداز میں انتظامات کئے ہیں۔

دنیا بھر میں کرونا وباء سے نبٹنے کے لئے دو موثر طریقے اپنائے گئے۔ ایک لاک ڈاؤن اور دوسرا Herd immunity. لاک ڈاؤن میں تمام عوامی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے، سرحدیں اور ائر پورٹ بند کر دی جاتی ہیں اور عوام کو گھروں تک محدود کر دیا جاتا ہے اور یوں لاک ڈاؤن کے دوران کرونا کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔

دوسرا طریقہ ہرڈ ایمیونٹی ہے کہ سب کچھ نارمل طریقے سے چلنے دیا جائے اور وباء سے اسی حالت میں نبٹا جائے۔ اس طریقہ کا کافی حد تک کامیاب تجربہ سویڈن کر چکا ہے گو کہ اسے عالمی ادارہ صحت اور امریکہ کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا اور شاید ترکی بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے۔

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہو گا جہاں بیک وقت دونوں طریقوں کی ناکام آزمائش کی گئی ہے اور ہم شاید واحد قوم ہوں گے، جس نے پہلے لوگ بچانے کے لئے معیشت تباہ کی اور اب معیشت بچانے کے لئے لوگ مروانے چلے ہیں۔

چین کے شہر ووہان میں جب کرونا پھیلنا شروع ہوا تو انہوں نے فوری طور پر شہر کو مکمل لاک ڈاؤن کر دیا تاکہ وائرس مزید نہ پھیل سکے۔ اس وقت جو خبریں آ رہی تھیں، ان سے ایک عام شخص بھی با آسانی اندازہ لگا سکتا تھا کہ یہ وائرس دوسرے ممالک میں پھیل سکتا ہے بلکہ پھیلے گا لیکن ہماری حکومت اس بارے میں سنجیدہ انتظامات کرنے سے بے اعتنائی کا مظاہرہ کرتی رہی۔ آج حکومت کرونا وباء سے نبٹنے کے لئے پانچ سو ارب روپے خرچ کرنے کا دعویٰ بھی کر رہی ہے۔ کاروبار بند ہیں اور معیشت تباہی کے دہانے پر ہے لیکن کرونا پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلتا نظر آ رہا ہے۔

حکومت اگر تھوڑی سی بھی سنجیدہ ہوتی تو تھوڑے اقدامات سے اس وباء سے بہتر طریقے سے نبٹا جا سکتا تھا۔ صرف چار پانچ ائر پورٹ، چار پڑوسی ممالک کی سرحدوں پر ذمہ داری کے ساتھ ہر آنے والے شہریوں کو روک کر قرنطینہ سینٹر بھیج دیا جاتا تو شاید ہم بہت سی انسانی زندگیوں کے ساتھ ساتھ قوم کا پیسہ بھی بچا سکتے تھے مگر ایسا نہیں کیا گیا اور اپوزیشن سمیت عوام نے صرف تفتان بارڈر پر شور شرابہ کئے رکھا مگر ائر پورٹ پر چھ ہزار روپے رشوت کے عوض کرونا مریضوں کو جانے کی اجازت دی جاتی رہی اور یوں کرونا وائرس مقامی طور پر منتقل ہونا شروع ہوگیا۔

جس پر حکومت نے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کرنے کا اعلان کیا مگر وہ لاک ڈاؤن بازار، اسکول اور کاروباری مراکز بند کرنے تک محدود رہا اور جن کو محفوظ رکھنے کے لئے لاک ڈاؤن کیا گیا، وہ کھلے عام گھومتے رہے نتیجہ وہی نکلا جو شاید حکومت چاہ رہی تھی کہ عوام بھی تنگ آ گئی،کاروبار بھی تباہ ہو گئے اور کرونا وائرس بھی پھیلتا رہا۔

اس کے نتائج اب سامنے آنے لگ گئے ہیں کہ جب دنیا بھر میں کرونا وباء کم ہوتی نظر آ رہی ہے، پاکستان میں کرونا پھیل رہا ہے، اب حکومت کرفیو نافذ کرنے کا بھی سوچتی ہے اور دوسری طرف ملک اور عوام کے معاشی حالات بھی سامنے ہیں، اس لئے کوئی بھی فیصلہ نہیں ہو پا رہا اور اب صرف ماسک نا پہننے پر جرمانہ کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

حکومت اگر ماہ مارچ میں ہی تین سے چار ہفتے کا کرفیو نافذ کر دیتی تو شاید اب ہمارے ملک سے کرونا ختم ہونے کو ہوتا مگر شاید ایسا کرنے سے پانچ سو ارب روپے ڈکارنے کا موقع نہیں مل سکتا تھا،اس لئے عوام کی زندگی کی قیمت کے بدلے میں اپنی تجوریاں بھرنے کو ترجیح دی گئی۔

ہمارے حکمران ایک عرصہ تک تو صرف اس تھیوری پر یقین کر کے مطمئن نظر آئے کہ کرونا وائرس گرم موسم میں خود ہی ختم ہو جائے گا، اس لئے صرف موسم گرما کے انتظار میں ہی اہم وقت ضائع کر دیا گیا مگر بعد میں یہ تھیوری بھی غلط ثابت ہو گئی تو یہ کہا گیا کہ پاکستان میں آنے والا وائرس زیادہ طاقتور نہیں ہے، اس لئے یہاں مقامی طور پر منتقلی کی رفتار نہایت کم ہے لیکن اس تھیوری کے پیچھے بھی وائرس کی کمزوری نہیں بلکہ ملک میں کم سے کم ٹیسٹ کرنا وجہ تھی اور جوں ہی ٹیسٹ زیادہ ہونے لگے، کیسز بھی بڑھنے لگے اور اب حالات یہ ہیں کہ ہم ایک دن میں سب سے زیادہ کیسز آنے کی لسٹ میں سب سے اوپر ہیں۔

اس معاملے پر بے اعتنائی برتنے پر چند اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ میرے خدشات غلط بھی ہوں۔ ایک خدشہ تو یہ ہے کہ حکومت ملک میں خود ہی کرونا کی سنگین صورتحال پیدا کرنے کی خواہش رکھتی ہو کہ اس کو بہانہ بنا کر زیادہ سے زیادہ نئے قرضے حاصل کئے جائیں یا پرانے قرض اگر معاف نہیں ہو سکتے تو کم از کم ان کی ادائیگی چند سال تک موخر کر دی جائے۔

میرا دوسرا خدشہ یہ ہے کہ حکومت اس سنگین صورتحال کا فائدہ اٹھا کر، وہ فیصلے کئے جائیں جو عام حالات میں اپوزیشن یا احتجاج کے خوف کے باعث ممکن نہیں تھے۔ جیسے پاکستان اسٹیل ملز کے تمام ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ۔ اب یہ فیصلہ اگر عام حالات میں کیا جاتا تو اسٹیل ملز کے ملازمین سڑکوں پر آ کر احتجاج کرتے، دھرنا دیتے جس پر اپوزیشن جماعتوں کو بھی سیاست کرنے کا موقع ملتا اور یوں فیصلہ واپس لے لیا جاتا مگر اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے مگر اس پر کوئی خاص تنقید ہوتی نظر نہیں آ رہی اور ملازمین بھی کرونا وباء کی وجہ سے مظاہرے نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے اداروں سے بڑی تعداد میں ملازمین کو نکالے جانے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

اب حکومت اس موقع سے فائدہ اٹھا رہی ہے یا فائدہ اٹھانے کے لئے موقع تیار کیا جا رہا ہے، یہ شاید کچھ وقت کے بعد ہی سمجھ آئے۔ دوسرا مسئلہ زراعت کے لئے تھا۔ 2019 کے آغاز میں عرب ممالک میں خلاف توقع زیادہ بارشیں ہوئیں، جس کی وجہ سے عرب کے ریگستان میں ٹڈی کو پھلنے پھولنے کا بہترین موقع مل گیا لیکن عرب ریاستوں نے اس کے سدباب کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا اور اس کی وجہ شاید یہی تھی کہ ان ممالک میں زراعت نا ہونے کے برابر ہے، اس لئے انہیں زیادہ نقصان کا خدشہ نہیں تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ بارشوں کے بعد ریگستان میں ٹڈی کے لئے انڈے دینے کا سازگار ماحول ہوتا ہے لہذا وہاں ٹڈی کی آبادی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا اور اس کے بعد ٹڈی نے دل کی شکل میں ایک طرف تو افریقہ کا رخ کیا اور دوسری طرف ایران کی طرف رخ کیا اور پھر ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوئی۔

2019 میں ہی قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنی تقریر میں حکومت کو ٹڈی دل کی طرف توجہ دلائی جو اس وقت تک پاکستان میں داخل ہو چکا تھا اور سندھ میں تباہی شروع کر چکی تھی۔ آصف علی زرداری نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس بجٹ میں ٹڈی دل سے نمٹنے کے لئے بجٹ میں فنڈز فراہم کئے جائیں تاکہ ہم اس آفت سے لڑ سکیں لیکن اس وقت حکومت نے اس معاملے پر توجہ نہیں دی۔ اس کے بعد پھر موسم سرما میں ٹڈی کی نسل افزائش کا موسم تھا تب بھی زرعی ماہرین حکومت سے مطالبہ کرتے نظر آئے کہ ہمیں اس معاملے پر توجہ دینی چاہئے کیونکہ ہمارے پاس یہ آخری موقع ہے، جوں ہی ٹڈی کے انڈوں میں سے بچے نکلنا شروع ہوں گے، یہ مزید طاقتور اور نقصان دہ ثابت ہوں گے لہذا اس وقت ہم کم محنت اور اخراجات میں اس کو ختم کر سکتے ہیں مگر تب بھی حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی اور پھر گزشتہ تین سے چار ماہ میں ٹڈی دل نے سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب میں تباہی مچائے رکھی۔

ٹڈی دل کی تعداد اور اڑنے کی صلاحیت کی وجہ سے عوام اس کا خاتمہ نہیں کر سکتی، سوائے اس کے کہ ڈھول اور شور شرابہ کر کے اس کو خوفزدہ کیا جائے اور وہ ان کے کھیت سے نکل جائے لیکن وہ ایک کھیت سے اڑ کر جائے گی بھی کہاں، کسی دوسرے کھیت میں تباہی پھیلائے گی۔

ماہرین کے مطابق ٹڈی کے دل میں تقریباً چار کروڑ ٹڈیاں ہوتی ہیں اور ایک دل روزانہ پینتس ہزار افراد کے برابر خوراک کھاتا ہے۔ اب آپ تصور کریں کہ گزشتہ کئی ماہ میں ٹڈی دل نے ہماری زراعت کو کتنا نقصان پہنچایا ہو گا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ٹڈی دل اب تک سات سو ارب روپے سے نو سو ارب روپے کا نقصان پہنچا چکا ہے۔ اب یہ نقصان کیونکہ عام کسانوں کا ہے، اس لئے حکومت نا ہی شوگر ملز مالکان کی طرح کسانوں کو اربوں روپے کی سبسڈی دے گی اور نا ہی امداد دے گی۔ پاکستان کا کسان تو تباہ ہو گیا لیکن جو تباہی کپاس، آم اور سبزیوں کی ہوئی ہے، پاکستان اس غذائی قلت سے کیسے نبٹے گا۔

حکومت پاکستان نے ٹڈی دل سے نمٹنے کے لئے بھی پلان عوام کے سامنے رکھ دیا ہے کہ کرونا وائرس کی طرح ٹائیگر فورس کو اس کام کے لئے متحرک کیا جائے گا، اب جس فورس کو کرونا وباء سے نبٹنے کے لئے بنانے کی تیاری کی گئی تھی، اس کی تو ضرورت رہی نہیں ہے، اب ٹائیگر فورس کو ٹڈی دل سے نمٹنے کے لئے تربیت دی جائے گی اور جب تک وہ تربیت مکمل ہو گی، اس وقت تک ٹڈی دل تمام زراعت ختم کر چکی ہو گی یا پاکستان سے روانہ ہو چکی ہو گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں