امریکہ مظاہرے اور اقدار کی بحث (ساجد خان)

امریکہ میں جب سے جارج فلائڈ کا پولیس کے ہاتھوں قتل ہوا ہے، اس کے بعد سے پورے ملک میں مظاہرے جاری ہیں، جس میں جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے۔ ان حالات پر پاکستان میں دو مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔ ایک طبقہ یہ کہتا نظر آ رہا ہے کہ کیا یہ وہ مہذب معاشرہ ہے کہ جس کے شعور اور مہذب پن کی مثالیں دی جاتی تھیں جبکہ دوسرا طبقہ اس بات پر خفا ہے کہ جارج فلائڈ کے قتل کی مذمت تو کی جا رہی ہے مگر اپنے ملک میں اس طرح کے واقعات میں سینکڑوں قتل ہوتے ہیں مگر پاکستان میں موجود انسانی حقوق کے علمبردار اس پر خاموشی اختیار کئے ہوتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کے موجودہ حالات امریکی معاشرے کا سیاہ پہلو ہیں اور اس کا احساس امریکی قوم کو خود بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ پولیس کے ہاتھوں قتل کے خلاف سخت احتجاج دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اسی طرح لوٹ مار کی بھی سخت مذمت کی جا رہی ہے۔ آج امریکی اقدار گو کہ حد سے زیادہ گری نظر آ رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے معاشرے سے پھر بھی بلند ہیں۔

آپ امریکی صدر سے لے کر ایک شہر کے پولیس انچارج تک کے بیانات پڑھ لیں۔
امریکی صدر کے حمایت یافتہ نیوز چینل News Fox سے لے کر مخالف چینل CNN کی خبریں سن لیں یا سوشل میڈیا پر کسی امریکی کا تجزیہ یا کمنٹ پڑھ لیں۔
آپ کو احتجاج کے حق اور مخالفت میں رائے پڑھنے کو ملیں گی، یہاں تک کہ لوٹ مار کی حمایت اور مخالفت میں بھی لکھا جا رہا ہے مگر ان سب بیانات اور بحث میں آپ کو حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفکیٹ جاری ہوتے نظر نہیں آئیں گے اور نا ہی کسی کو ان حالات میں غیر ملکی سازش نظر آئی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ ان مظاہروں کے تانے بانے روس سے جا کر ملتے ہیں یا جلاؤ گھیراؤ کے پیچھے دشمن ملک ایران ملوث ہے۔ بس جو ملک میں ہو رہا ہے، اس کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ہر شخص کھل کر اظہار کر رہا ہے۔

پاکستان میں بھی نسل یا مذہب و فرقہ کے بنیادی حقوق کے لئے آواز بلند کی جاتی ہے۔ مظلوم کے حق میں بھی بولا جاتا ہے۔ اس کی حمایت اور مخالفت میں بھی رائے رکھی جاتی ہے مگر اس میں غداری اور حب الوطنی کا تڑکہ بھی لازمی لگایا جاتا ہے۔ آج امریکہ میں فوج طلب کر لی گئی ہے۔ امریکی عوام کی اکثریت اپنی ہی عوام کے خلاف فوج بلانے پر سخت تنقید کرتی نظر آ رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سی ویڈیوز موجود ہیں جس میں ایک عام شہری اپنی فوج پر تنقید کرتا نظر آتا ہے یا فوج سے انہیں روکنے کی بابت سوال کرتا ہے۔

مجھے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ایک سیاہ فام عورت فوجی افسر سے سخت لہجے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہے کہ تم ہمارے محافظ ہو، تم ہمیں احتجاج سے کیسے روک سکتے ہو جو کہ ہمارا بنیادی حق ہے، تمھیں ہمارے ساتھ ہونا چاہئے تھا، تم اپنے ہی ملک کی عوام کے خلاف کیسے جا سکتے ہو۔ ان سخت باتوں کو فوجی افسر نے نہایت تحمل سے سنا اور وضاحت دی کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں اور تمھارے ساتھ رہیں گے لیکن اس وقت ہم یہاں تم لوگوں کو روکنے کے لئے نہیں بلکہ دکانوں کو لوٹ مار سے بچانے کے لئے ہیں۔ اس پر ایک اور سیاہ فام خاتون کہتی ہے کہ اگر تم ہمارے ساتھ ہو تو کیا تم گھٹنے کے بل جھکو گے یعنی کہ اس عمل کو دہراؤ گے جس سے جارج فلائڈ کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ جس پر فوجی افسر گھٹنا زمین پر ٹیک دیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی باقی فوجی بھی جھک جاتے ہیں۔ اس ویڈیو پر کسی امریکی نے اس خاتون کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا اور نا ہی فوجی اہلکاروں کو عوام کی سخت باتیں توہین نظر آئیں۔ اس دوران امریکی جنرل نے وائٹ ہاؤس کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اپنی ہی عوام کے خلاف فوج کا استعمال امریکی آئین کے خلاف ہے۔ ایک امریکی شہر کا پولیس چیف ٹی وی پر باوردی ہو کر امریکی صدر کے نفرت انگیز بیان پر اسے شٹ اپ کال دیتا ہے۔
یہ امریکی اقدار ہیں۔

پاکستان میں تین سال پہلے پاراچنار میں عید سے دو دن قبل مرکزی بازار میں دو خودکش حملے ہوتے ہیں، اب پاراچنار تقریباً چاروں طرف سے سیکیورٹی اداروں کی نگرانی میں ہے، جس پر عوام نے سیکیورٹی اہلکاروں کی نااہلی کے خلاف مظاہرہ کیا اور ان نہتے افراد پر ان کی حفاظت پر مامور اہلکاروں نے ان نہتے مظاہرین پر ہی فائرنگ کر دی، جس سے مزید افراد جاں بحق ہوگئے، جس پر اہل علاقہ نے دھرنا دے دیا۔ اب اسے اتفاق کہیں یا بدقسمتی کہ اس علاقے کا انچارج کرنل عمر ملک تھا، جس پر یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ شیعوں کو کرنل کے نام کی وجہ اس افسر سے نفرت ہے حالانکہ سب جانتے تھے کہ ان درجنوں انسانی جانوں کو بچانے کی ذمہ داری اس کرنل کی تھی خواہ اس کا نام عمر ہوتا، علی ہوتا یا حسین مگر ہم نے لاشوں پر بھی جھوٹ اور نفرت پھیلانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ محسن داوڑ ہو یا علی وزیر وہ اپنی عوام کے نمائندے کی حیثیت سے کوئی بھی بات کریں تو انہیں افغان ایجنٹ قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ یہ ہماری اقدار ہیں۔

امریکی فوج اپنی عوام سے لڑنے کا صدارتی حکم ماننے سے انکار کر دیتی ہے۔ یہ امریکی اقدار ہیں۔

بلوچستان میں ریاست کی زیر سرپرستی ڈیتھ اسکواڈ چل رہے ہیں جو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے یا شوق ک لئے عوام سے بدمعاشی بھی کرتے ہیں اور ڈکیتیاں بھی مگر ان پر کوئی قانون نافذ نہیں ہوتا۔ یہ ہماری اقدار ہیں۔

پاکستان میں بھی اس طرح کے واقعات کے بعد احتجاج ہوتے نظر آتے ہیں۔ کراچی میں راؤ انوار کے ہاتھوں قتل ہونے والے نقیب اللہ محسود کے حق میں آواز بلند ہوئی اور جس طرح امریکہ میں سیاہ فام شہریوں کی ایک الگ سے تنظیم ہے، اسی طرح پاکستان میں بھی پشتون قوم میں ایک تنظیم (پشتون تحفظ موومنٹ) قائم ہوئی لیکن اس کا کس نے ساتھ دیا بجائے اس کے کہ ان کے مطالبات سنے جاتے، ان پر توجہ دی جاتی اور جائز مطالبات پورے کئے جاتے، ہم اس کوشش میں لگ گئے کہ اس تنظیم کو غدار ثابت کیا جائے اور یہی سب کچھ آج بھی ہوتا نظر آ رہا ہے۔

مجھے عجیب لگتا ہے کہ جب ہم پی ٹی ایم کو افغان ایجنٹ قرار دے کر نفرت کا اظہار کرتے ہیں جبکہ افغانستان میں افغان قوم کے خون کے ساتھ ہولی کھیلنے والے طالبان کو عزیز رکھتے ہیں۔ اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ ہم افغانستان میں تین دہائیوں سے افغان قوم کا خون پانی کی طرح بہانے والے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی ہیں مگر پرامن احتجاج کرنے والی پی ٹی ایم کو طاقت سے ختم کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ پشتون قوم جب احتجاج کر رہی تھی تو کتنے پنجابی اظہار یک جہتی کے لئے شامل ہوئے، کتنے سندھیوں اور مہاجروں نے ساتھ دیا جبکہ دوسری طرف سفید فام شخص کے ہاتھوں سیاہ فام شہری کے قتل کے بعد سفید فام شہری بھی سراپا احتجاج نظر آئے۔ یہ بھی امریکی اقدار کا ایک مثبت پہلو ہے۔

کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری کا ایک عرصہ تک قتل عام جاری رہا مگر ملک کی ایک اکثریت اس ظلم کی مذمت کرنے کے بجائے ہزارہ برادری کی پاکستان سے وفاداری مشکوک قرار دے کر قتل عام کو جائز قرار دیتی رہی۔ یہ ہماری اقدار ہیں۔

آج امریکہ میں مسلمان جارج فلائڈ کے حق میں سڑکوں پر مظاہرے کر رہے ہیں اور سڑک پر ہی باجماعت نماز ادا کر رہے ہیں،جس میں بہت سے غیر مسلم افراد بھی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے ان کے ساتھ صف میں کھڑے ہو کر نماز ادا کر رہے ہیں مگر کسی نے ان کو برا بھلا نہیں کہا۔ یہ امریکی اقدار ہیں۔

دوسری طرف سندھ میں میاں مٹھو زبردستی ہندو بچیوں کو مسلمان کر رہا ہے مگر قوم خاموش ہے۔ بلاول بھٹو ہندو برادری کے تہوار میں شرکت کرتا ہے تو اسے کافر قرار دے دیا جاتا ہے۔
یہ ہماری اقدار ہیں۔ امریکہ میں ماہ رمضان میں کافروں کے بڑے اسٹورز اسپیشل ڈسکاؤنٹ آفر کرتے ہیں۔ یہ امریکی اقدار ہیں۔ ہم مسلمان ہو کر مہنگائی کر کے برکت کو زبردستی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ہماری اقدار ہیں۔

ہمیں کسی قوم کی اقدار پر انگلی اٹھانے کا حق ہی نہیں ہے اور اگر دل کرے بھی تو اس سے پہلے اپنے گریبان میں ضرور جھانک لینا چاہئے کیونکہ دوسری اقوام کی اقدار جتنی بھی گر جائیں،ہم سے پھر بھی بہتر ہی ہوں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں