سوچ کی طاقت…! (سید ابرار ہمدانی)

اللہ رب العزت نے ہر انسان کو سوچنے کی صلاحیت سے نوازا ہے کسی کو کم اور کسی کو زیادہ، جس کو جتنا سوچنے کی صلاحیت دی ہے اتنا ہی سمجھنے کی بہی صلاحیت دی ہے۔

اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں آیت کا مفہوم ہے میں کسی پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے اللہ پاک انسان کو اتنی ہی سچ دیتے ہیں جو وہ کر سکتا ہے، اور جو انسان سوچتا ہے اللہ بندے کے ساتھ معاملہ بھی وہی کرتا ہے، خود اللہ پاک کا فرمان ہے جو بندہ مجھ سے گمان کرتا ہے، میں اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں۔ ایک جگہ ارو فرمان ہے کہ انم الاعمال بنیات انسان کے اعمال کا دارومدار اس کی نیت پر ہے۔ یعنی کے اس عمل کی توفیق ملے گی جس کی نیت کرے گا، تو یہ بات ثابت ہو گی کے نیت سوچ ارادہ فکر ہی انسان کی اصلی طاقت اور قوت ہے۔

انسان کی سوچ اس کی زندگی پر حکمرانی کرتی ہے۔ اس ایک خیال پر مائنڈ پاور کی ساری سائنس کی بنیاد ہے۔ مائنڈ پاور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی ذہن جو کچھ سوچتا ہے یا پھر جو مسلسل سوچ اس کے ذہن میں پیدا ہوتی ہے وہی تصویر اس کی زندگی میں بنتی چلی جاتی ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی میں خوبصورتی اور میسر نعمتوں کو سوچتے ہیں تو اس عینک سے ہم اپنی زندگی کو خوب صورت دیکھنے لگتے ہیں۔ ہمیں قدرت کی طرف سے عنایت کردہ نعمتوں کا بھر پور ادراک ہونے لگتا ہے۔ ایسے میں ہمارے اندر شکر گزاری کے احساسات کا پیدا ہونا یقینی ہے۔

دوسری سوچ ہمہ وقت مسائل اور زندگی میں درپیش مصیبتوں اور مسائل پر کڑہتے رہنے کی ہے۔ ظاہر ہے زندگی میں ہمیشہ مشکلات اور چیلنجز انسان کو درپیش رہتے ہیں کون ہو گا جس کی زندگی کا سفر ایک سیدھی ہموار سڑک پر گزر رہا ہو۔ لیکن جب ہمارا ذہن صرف انہی مسائل بارے سوچتا رہتا ہے تو کڑھتے رہنے سے مشکلات کا احساس اور بڑھ جاتا ہے۔ اس سے مسائل کم ہونے کے بجائے دوگنا زیادہ محسوس ہونے لگتے ہیں۔ حضرت علیؑ کا فرمان ہے کہ ’’پریشانی میں پریشان ہونا سب سے بڑی پریشانی ہے‘‘ اس پر غور کریں تو بات سمجھ میں آنے لگتی ہے کہ پریشان ہونا ایک ذہنی کیفیت کا ہی تو نام ہے۔ جب مسلسل یہی منفی ذہنی کیفیت انسان کی رہے گی تو ظاہر ہے اس کے سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کی صلاحیت کو گھن لگ جائے۔ حکمت کی بات یہی ہے کہ انسان آزمائش میں بھی گھرا ہو تو مثبت سوچ کی کھڑکیوں کو کھلا رکھے۔

مثبت سوچ تازہ ہوا کی طرح گھٹن اور خبس کو کم کر کے شہر احساس کے ماحول کو خوشگوار بناتی ہے۔ مثبت سوچ کا ماخذ وہ یقین اور توکل ہے جو ہمیں اپنے رب کی ذات پر ہے۔ میرے نزدیک توکل پورے جذبے کے ساتھ کوشش کرتے رہنے کا نام ہے: تو دیوا بال کے تے رکھ خدا جانے ہوا جانے۔

شاکر شجاع آبادی کا حکمت سے لبریز خیال اور اسی خیال کو میاں محمد بخش نے کیسے بیان کیا: مالی دا کم پانی لانا تے بھر بھر مشکاں پاوے مالک دا کم پھل پھول لانا لاوے یا نہ لاوے، ایک بزرگ سے کسی نوجوان نے سوال کیا کہ اس معاشرے میں جہاں سفارش رشوت، بددیانتی چلتی ہو وہاں انسان کوشش کر کے کیا کرے۔ بزرگ نے جواب دیا اگر تمہیں سو فیصد یقین ہو کہ تمہاری کوشش رائیگاں جائے گی تو بھی کوشش کرنا تم پر فرض ہے اور یہی توکل کی اصل صورت ہے قرآن کی ایک آیت کا مفہوم ہے۔ اور تمہیں وہی کچھ ملتا ہے جس کی تم کوشش کرتے ہو۔ لفظ ’’کوشش‘‘ تہہ دار معنی رکھتا ہے۔ اس میں عزم ہے حوصلہ ہے۔ مثبت سوچ کی توانائی۔ خوابوں کی خوبصورتی ہے آس ہے امید ہے الغرض اس میں زندگی کو زندگی کی طرح گزارنے کی ساری انرجی اور خوبصورتی موجود ہے۔ جس انسان کی کوشش ثمر آور نہیں ہوتی تو اسے وہ اپنی ناکامی تصور کرتا ہے۔ ناکامی کا احساس منفی سوچ ہے۔ اور منفی سوچ انسان کے اندر موجود صلاحیتوں کو گھن کی طرح چاٹ جاتی ہیں۔ ہر حال میں مثبت سوچ رکھنے والا انسان ناکامی کو اس سارے عمل کا حصہ سمجھتا ہے جو وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کر رہا ہوتاہے۔ یہی مائنڈ پاور ہے کہ آپ کس انداز میں چیزوں کو دیکھ کر اپنے لئے دنیا کی تصویر میں خود رنگ بھرتے ہیں۔

مثبت سوچ رکھنے والا، مسائل کو اپنے لئے چیلنجز سمجھتا ہے ’’چیلنج‘‘ کا لفظ ہی آپ کو حالات سے لڑنے اور مسائل پر قابو پانے کی توانائی دیتا ہے۔ اسی چیلنج کو آپ مسئلہ بنائیں گے تو اس خیال سے انسان کے اندر self pity کا احساس ابھرتا ہے۔ اپنے آپ کو قابل رحم سمجھ کر زندگی بسر کرنے والے مسائل پر قابو پانے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ ان کے اندر شکایت اور شکوے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ شکوے کے ساتھ ہی وہ شکر گزاری کی روشنی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ حالات کی اونچ نیچ، باہمی تعلقات میں آنے والے اتار چڑھاؤ اور زندگی کی دھوپ چھائوں لمحوں سے گزرتے ہوئے شکر گزاری کا احساس واقعی کسی روشنی سے کم نہیں۔ شکر گزاری ایک ایسے دیرینہ دوست کی مانند ہے جس کا ہاتھ تھام کر آپ مشکل راستوں سے بھی بآسانی گزر جاتے ہیں۔ دین مبین میں ہمیں بار بارشکر گزاری کی تلقین کی گئی ہے۔

قرآن کی ایک آیت کا مفہوم بھی یہی ہے کہ انسان تھڑدلا ہے، ناشکرا اور جھگڑالو ہے۔۔ شکر گزاری جسے انگریزی میں Gratitude کہتے ہیں۔ اس پر مائنڈ پاور سائنس دانوں نے تحقیق کی اور بتایا جب انسان شکر گزاری اور Gratitude کے احساس کو اپنے ذہن میں جنم دیتا ہے تو یہ احساس اس کی زندگی میں ایک مقناطیس کی طرح کام کرتا ہے۔ شکر گزاری کا یہ مقناطیس، مثبت چیزوں، نعمتوں اور Blessings کو اٹریکٹ کرتا ہے۔ شکر گزاری ایک انتہائی طاقتور مثبت طرز فکر ہے۔ جس سے آپ کی زندگی کے ڈیزائن میں مثبت تبدیلی آتی ہے۔ مغرب میں شکر گزاری کی سائنس پر تحقیق کرنے والوں نے آج اسے ایک ایسا مقناطیس قرار دیا جو زندگی میں بہتری اچھائی اور نعمتوں کو اپنے جانب کھینچتا ہے۔ لیکن یہی بات قرآن پاک میں ہماری زندگیوں اور تقدیر کو تخلیق کرنے والے رب نے اس طرح سے بیان کی۔ ’’شکر کرو تاکہ نوازے جائو‘‘ شکر تو ایک احساس ہے جو ہمارے ذہن میں جنم لیتا ہے۔ شکر چیزوں کو مثبت انداز میں دیکھنے اور میں جنم لیتا ہے۔ شکر چیزوں کو مثبت انداز میں دیکھنے اور سمجھنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں