ولایت فقیہ…! (ساجد خان)

ایران میں جب اسلامی انقلاب آیا تو اس نے تمام مسلم امہ خصوصاً اہل تشیع کو بطور خاص متاثر کیا۔ ہمارے گھر میں آج بھی آیت اللہ روح اللہ خمینی کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ میں بذات خود ایران کی بہت سی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے کے باوجود آیت اللہ روح اللہ خمینی اور قاسم سلیمانی سے عقیدت رکھتا ہوں۔

پاکستان میں وہ اہل تشیع جو ایران سے سخت اختلاف رکھتے ہیں، وہ بھی خمینی صاحب کے لئے محبت کا جذبہ رکھتے ہیں۔
عام الفاظ میں خمینی صاحب کو ملنگ آیت اللہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
ایک دوست جو کئی سال ایران میں دینی تعلیم حاصل کرتے رہے، انہوں نے بتایا کہ ایران میں ایک روایت قائم تھی کہ خواہ کوئی امیر ہو یا غریب، وہ دس محرم کو نیاز امام حسین علیہ السلام ضرور بنا کر تقسیم کیا کرتے تھے۔

جب ایران عراق جنگ طویل ہو گئی اور معاشی حالات خراب ہو گئے تو ایرانی قوم نے آیت اللہ روح اللہ خمینی سے فتویٰ مانگا کہ کیا ہم معاشی حالات ناسازگار ہونے کی وجہ سے نیاز میں کمی کر سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ایسا ہرگز نہیں کیا جا سکتا، تم اگر دو روٹیاں کھاتے ہو تو اب ایک کھاؤ اور ایک روٹی کی بچت کر کے نیاز امام حسین علیہ السلام دو۔

مجھے نہیں یاد کہ انہوں نے عزاداری کے مسئلہ پر اپنی ذاتی سوچ دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کی ہو یا شیعہ قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہو۔

اس وقت بھی تو MI6 تھی مگر کبھی کسی پر الزام نہیں لگایا گیا،آج اپنی غلط پالیسیوں کو تحفظ دینے کے لئے غداری اور ایجنٹ کی پالیسی اپنائی گئی اور ایسا تبھی ہوتا ہے جب آپ جواب دینے کے قابل نہیں ہوتے۔ خمینی صاحب کے بعد ایران میں پالیسی یکسر تبدیل ہوتی نظر آئی، یہاں تک کہ خمینی صاحب کو بھی پاکستان میں قائداعظم کی طرح صرف کرنسی نوٹ اور دیوار پر لٹکتی تصویر کی حد تک محدود کر دیا گیا۔

آخر ایسا کیا ہوا کہ امام خمینی کی وفات کے بعد اسلامی انقلاب اور سپریم لیڈر سے محبت کرنے والے، ایران سے اکتاہٹ محسوس کرنے لگ گئے اور شیعیت میں واضح تقسیم ہوتی چلی گئی۔ اس معاملہ پر میں نے بہت سوچ و بچار کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بعد میں آنے والے ایرانی مذہبی رہنماؤں نے انقلاب ایران اور شیعیت کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جبکہ اس عقیدے میں شدت اور انتہا پسندی کا عنصر بھی نمایاں ہوتا نظر آیا ہے کہ جو ایرانی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھائے، اس کا شیعیت سے تعلق نہیں ہے۔

دوسرے الفاظ میں ایران کو ہی شیعیت بنایا جا رہا ہے۔

کیا اب ایرانی قوم ہمیں بتائے گی کہ کون اصلی شیعہ ہے اور کون نقلی۔

عزاداری میں قمیض اتار کر ماتم کرنا حرام ہے کیونکہ یہ ایرانی ثقافت نہیں ہے لیکن ماتمی جلوس میں مکمل میوزیکل بینڈ کے ساتھ ماتم کرنا حلال ہے کیونکہ یہ ایرانی ثقافت ہے۔ زنجیر زنی حرام ہے کیونکہ یہ ایرانی ثقافت نہیں مگر ایرانی زنجیر مارنا حلال ہے کیونکہ وہ ایرانی ثقافت ہے۔ یہ حلال حرام شیعیت کا حصہ نہیں ہے بلکہ ایرانی ثقافت زبردستی شیعیت پر تھوپنے کی کوشش ہے۔ ذاکر مجلس پڑھنے کی فیس لے تو حرام ہے لیکن پاکستان میں بیٹھے مولوی کو ایران سے ملتے تومان حلال ہیں۔

آپ نوروز کے تہوار کی مثال لے لیں، آپ کو نا ہی اسلامی تاریخ میں اس کے بارے میں کچھ میں ملے گا اور نا ہی شیعیت سے اس کا تعلق ہے بلکہ یہ ایرانی کلینڈر کے نیا سال شروع ہونے کا چشن ہے جیسے مغرب میں بھی نئے سال کے آغاز پر خوشی منائی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جشن نوروز کرد قوم کے ساتھ ساتھ تاجک، ازبک اس سے پہلے کہ میں ان وجوہات پر کچھ لکھوں، میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ عام حالات میں میری سوچ یا نظریہ بیشک مختلف ہو لیکن تحریر لکھتے وقت میری حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ میں تحریر پر اپنی سوچ غالب نا آنے دوں بہرحال کوشش کے باوجود زیادہ یا کم اثر تو پڑ ہی جاتا ہو گا، اس کے لئے پیشگی معذرت۔

ایران میں انقلاب کے بعد جو اہم نظریہ سامنے آیا وہ ولایت فقیہ کا ہے۔ اس موضوع پر میری بہت سے ایرانی دوستوں اور ولایت فقیہ کے حامی افراد سے سوشل میڈیا پر طویل بحث ہوتی رہی ہے مگر اس کے باوجود میں ولایت فقیہ کو شیعہ عقیدے سے زیادہ ایرانی پالیسی سمجھتا ہوں۔

ولایت فقیہ کو جس طرح شیعیت کے لئے اہم قرار دیا جاتا ہے، اس کے تناظر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں پھر دوسرے مراجع حضرات کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے اور اگر آپ غور کریں تو ولایت فقیہ اور عقیدہ تقلید مکمل متضاد ہیں۔ میں نے ایک سوال ہر شخص سے کیا کہ اگر ولایت فقیہ شیعیت کا عقیدہ ہے تو کیا کوئی غیر ایرانی شخصیت ولی فقیہ بن سکتی ہے یا نہیں؟ اس پر پاکستانی افراد کا جواب غیر تسلی بخش تھا جنہوں نے جواب میں کہا کہ کیا پاکستان میں کوئی ایسی مذہبی شخصیت ہے جو اس اہم عہدے کے معیار پر پوری اتر سکے۔

ظاہر ہے کہ یہ تاویل میرے سوال کا جواب نہیں ہے لیکن یہاں ایک اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں سے بھیڑ بکریوں کی طرح پاکستانی نوجوانوں کو ایران میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجا جاتا رہا ہے تو کیا ایرانی دینی نظام تعلیم اتنا ناقص ہے کہ کوئی ایک طالب علم بھی تیار نہیں کیا جا سکا کہ وہ آج ولی فقیہ کے معیار پر پورا اتر سکے۔ چلیں برصغیر میں نا سہی مگر عراق اور دوسرے عرب ممالک میں تو ایسی قابل شخصیات موجود ہیں، کیا انہیں ولی فقیہ نامزد کیا جا سکتا ہے۔

ولی فقیہ نا سہی، کیا ولی فقیہ نامزد کرنے والی شوری میں کوئی غیر ایرانی ممبر بنا یا بن سکتا ہے یا ولی فقیہ کے امیدواروں میں کسی غیر ایرانی مجتہد کو بھی شامل کیا گیا تو اس کی صرف ایک مثال دے کر مجھے مطمئن کر دیں۔ اب اگر اس کے لئے صرف ایرانی شہری ہونا ضروری ہے اور شوری کی نمائندگی بھی صرف ایرانی شہری ہی کر سکتا ہے تو پھر یہ عقیدہ تمام شیعیت کا کیسے ہو سکتا ہے۔

ولی فقیہ کے بارے میں عقیدہ ہے کہ وہ امام علیہ السلام کے نائب ہوتے ہیں لیکن یہ عجیب نائب ہیں کہ امام وقت کو اپنے ہی نائب کو مقرر کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے اور نا ہی ان سے اس ضمن میں مشورہ کیا جاتا ہے کہ مولا! ہماری نظر میں یہ چار پانچ ایرانی مجتہدین آپ کے نائب بننے کی اہلیت رکھتے ہیں، اب آپ ہمیں بتائیں کہ کس کو آپ کا نائب مقرر کریں۔

یہ شوری کے انتخاب کے عقیدے پر تو ہمارا صدیوں سے اختلاف چلا آ رہا ہے تو شیعیت میں آج وہی شوری حلال کیسے ہو گئی جو ماضی میں حرام تھی؟

ولایت فقیہ کا ایک مثبت پہلو تو ہے کہ اس سے پوری دنیا کے اہل تشیع ایک مرکز کے تابع ہوں گے لیکن یہ عہدہ شیعیت سے زیادہ ایرانی مفادات کا دفاع کرتا نظر آ رہا ہے اور یہی اس عقیدے کی بنیادی خامی بھی ہے کہ شیعیت کو ایرانی مفادات کا غلام بنا دیا گیا ہے۔ اپنے ملک میں جو ظلم ہوتا رہے پرواہ نہیں لیکن ایران کی چڑیا مر جائے تو اودھم مچا دیا جاتا ہے۔
ایران اگر واقعی شیعیت کے لئے مخلص ہے یا ولایت فقیہ کا عقیدہ شیعیت کا حصہ ہے تو پھر ایران سے باہر کی شیعیت کو بھی اس میں اختیار دیا جائے اور غیر ایرانی علماء کو بھی ولی فقیہ نامزد کر کے اس اعتراض کو ختم کیا جائے۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا تب تک ہمارے اعتراضات اور خدشات جائز ہیں۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں