غضب کیا تیرے وعدے پر اعتبار کیا (سید صفدر رضا)

ریاست مدینہ کا نام لیکر ہم خوش تھے کہ قوم کا سب سے محروم اور پسے ہوئے طبقے کا درد دل رکھنے والی دعویدار حکومت آ گئی تبدیلی کا جو خواب دکھایا گیا تھا کہ پہلے 100 دن میں اک نیا نظام حکومت قائم کر دیا جائے گا۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد الٹی گنتی شروع کر دی دکھ میں پلتی عوام سے پھر نیا وعدہ آیا کسی کو نہیں چھوڑوں گا اور کہا سو دن میں درست سمت طے کر لی جائے گی پھر کچھ گرفتاریاں ہوئیں کچھ جلدی کچھ دیر سے رہا ہوئے کچھ کی ضمانتیں ہو گئیں اک وعدہ سامنے آیا۔ IMF کے پاس نہیں جائیں گے مرجائیں گے مگر اب بجٹ آئی ایم ایف کی سفارشات پر بن رہا ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس، گورنر ہاؤس، علمی ادارے یونیورسٹیز میں بدل دونگا۔ ڈالر مہنگا نہیں کرونگا۔ روپے کی قیمت میں استحکام لاؤں گا۔ پٹرول بجلی گیس مہنگی نہیں کروں گا۔ 8 روپے بجلی کے یونٹ والا بل مہنگا تھا بل جلائے گئے اب غریب عوام 18 روپے یونٹ بل بھرنے پر مجبور ہے۔ کبھی ٹیکس ایمنسٹی سکیم نہیں دونگا، عام معافی بالکل نہ ہو گی۔ یہ اشرافیہ کو فائدے کے لئے ہوتی ہے۔ غیر ملکی دورے نہیں کروں گا۔ اپنی کابینہ چھوٹی رکھوں گا، کابینہ سادگی ہوگی، کابینہ کی تعداد سامنے ہے۔ جس پر الزام ہو گا وہ وزیر نہ ہوگا۔ احتساب مجھ سے شروع ہوگا پھر وزرا کا ہوگا۔ میں آزاد ارکان اسمبلی کو حکومت میں نہیں لونگا مگر اب تو کئی مشیر غیر ملکی شہریت و غیر منتخب ہیں۔ مگر اب کہا جارہا جیسی ٹیم چاہتا تھا ویسی ٹیم نہیں ملی۔ غریب عوام کہاں جائے۔ میرے کپتان آپ نے فرمایا مرغی بھینسوں کی اسکیم متعارف کروائی تھی کیا بنا اسکا آپ نے کہا تھا غریبوں کو گھر دوں گا۔ بے روزگاروں کو نوکری دوں گا بلکہ دوسرے ممالک سے لوگ روزگار کے لئے وطن عزیز کا رخ کریں گے مگر یہاں تو صرف 9000 سے زائد لوگوں کو سٹیل مل سے بے روزگار کیا جارہا ہے ابھی تو ابتدا ہے۔ آپکو تو غریبوں کے روزگار کی بڑی فکر تھی، لاک ڈاؤن کے لئے تذبذب کے شکار فیصلوں کی بدولت کرونا کے شکار افراد کی تعداد پریشان کن حد میں داخل ہوچکی ہے WHO کا مراسلہ بتا رہا ہے کہ چھ بین الاقوامی قوانین میں ہم ایک بھی شرط پر پورے نہیں اترتے کہ لاک ڈاؤن ختم کیا گیا۔ آج ملک کو ایک گھمبیر صورت حال کا سامنا ہے۔ ہمارے فرنٹ لائن پر لڑنے والے ڈاکٹر نرسز پیرا میڈیکل اسٹاف کی قربانیاں رایگاں ہوتی نظر آرہی ہیں حفاظتی کٹس کی بجائے ہسپتالوں میں تابوت مہیا فرما دیئے گئے ہیں۔ نہ اب تک کوئی ہسپتال بنا نہ سرمایہ کاری بڑھی نہ ایکسپورٹ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ نہ کوئی گیس کا منصوبہ بنایا گیا نہ کوئی بجلی کا منصوبہ لگایا گیا نہ کوئی شاہراہ بنی نہ پشاور کی BRT ہی مکمل ہوئی۔ نہ مالم جبہ کیس آگے بڑھتا دیکھائی دیا۔ بحران ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ عامر کیانی والا معاملہ کہاں ہے انڈیا سے ادویات کیسے آئیں، کون ذمہ دار ہے۔ آٹے کے بحران کس کی وجہ سے آیا ذمہ داریان کا کیا بنا۔ آج بھی آٹے کی قیمت 800روپے والا توڑا 1100 تک جا پہنچا۔ پٹرول کی دنیا بھر میں بہتات ہے مگر ہمارے وطن میں نا پید ہے اس کے سستا ہونے کا فائدہ غریب عوام تک نہیں پہنچ رہا۔ اس بحران کا ذمہ دار کون ہے اب بجٹ آرہا ہے اس میں غریب گورنمنٹ ملازمین اپنی تنخواہوں اور پینشن میں وہی مراعات چاہتے ہیں جو ارباب اختیار نے جس نسبت سے قومی و صوبائی ممبران اسمبلی کو دی گئی ہیں اس ہی نسبت سے ہی تنخواہوں اور پینشن میں اضافہ کیا جائے۔ عدالتوں میں غربا کے مقدمات گزشتہ رفتار سے ہی چل رہے ہیں۔ انصاف سستا اور آسان کب ہوگا۔ چینی کی رپورٹ کا کریڈٙ تو آپ لیتے ہیں مگر چینی کی سبسڈی کس نے اور کیوں دی اگر پہلے کی حکومتوں نے دی تو اس دور میں چینی اتنی مہنگی نہ ہوئی تھی اب بھی غریب عوام 56 روپے کلو والی چینی 85 سے 90 روپے کلو خریدنے پر مجبور ہے۔ سبسڈی کے وقت 72 روپے کلو، تحقیقات پر 75 روپے کلو۔ رپورٹ لیک ہونے پر 80 روپے کلو فرانزک رپورٹ آنے پر 85 سے 90 روپے کلو مل رہی ہے اور اصل قیمت سے ایک روپیہ زیادہ پر بکنے سے مڈل مین ملز مالکان ایک ارب روپیہ اضافی روزانہ کی بنیاد پر عوام سے لے رہے ہیں یہاں تو دس سے بارہ ارب روپے روزانہ غریب بچاری عوام کی جیب سے نکالا جارہا ہے یوٹیلیٹی اسٹورز پر سبسڈی والی چینی کی خرید پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ اور حکومتی خاموشی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ چینی کے سکینڈل میں جن افراد کے نام ہیں ان کے نام ECL میں نہ ڈالنا بھی سمجھ سے باہر ہے۔ جہانگیر ترین تو اپکی حکومت بنوانے میں ممدو معاون بھی تھے اور جہاز پٹرول سے چلتا ہے یقیناً اس کا آپ پر کوئی بار نہیں۔ یہ سب مسائل میں گھری عوام اب اس وعدے کو فراموش کرتی جا رہی ہے کہ گھبرانا نہیں میرے ہم وطنوں۔ آپ جتنی بار ٹی وی پر خطاب فرما چکے ہیں کاش اسمبلی کو بھی اتنا مقام عطا فرماتے۔ ہر ہفتے اسمبلی آنے کا وعدہ بھی آپکا ہی تھا مگر غضب کیا تیرے وعدے پر اعتبار کیا۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں