جنرل اسمبلی اجلاس: حسن روحانی کا سعودی عرب سے یمن میں جارحیت ختم کرنے کا مطالبہ

نیو یارک (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسیاں) ایران کے صدر حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سعودی عرب سے یمن میں جارحیت ختم کرنے کا مطالبہ کردیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایرانی صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’یمن میں جارحیت ختم کرنے کے ساتھ ہی سعودی عرب کی سیکیورٹی کی ضمانت دیتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب غیر ملکیوں کو دعوت دینے کے بجائے یمن میں محاذ آرائی ختم کرے‘۔

ایران کے صدر حسن روحانی نے مزید کہا ہے کہ امریکی صدر نیا ایٹمی معاہدہ چاہتے ہیں تو انہیں ریادہ رقم خرچ کرنا ہوگی۔ دباؤ میں کسی قیمت پر بھی ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات نہیں ہوسکتی۔

امریکی شہر نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے چوہترویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے صدر کا کہنا تھا۔ 2015 کا ایٹمی معاہدہ خود ڈونلڈ ٹرمپ نے ختم کیا۔ اگر وہ نیا معاہدہ چاہتے ہیں تو اسے ایران کو نقصان کا ازالہ کرنا ہوگا اور دیگر پانچ عالمی طاقتوں کے مقابلے میں زیادہ رقم خرچ کرنا ہوگی۔

حسن روحانی نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں امریکی صدر سے ملاقات کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا اور دباؤ میں تو کسی بھی صورت میں ٹرمپ سے ملاقات نہیں کروں گا۔

منگل کے روز امریکی صدر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران ایران نے الزام عائد کیا تھا کہ تہران نے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملہ کیا۔

حسن روحانی نے عالمی رہنماؤں کو انتباہ کیا کہ خلیج کا خطہ تباہی کے دہانے پر ہے اور کوئی ایک چھوٹی غلطی بھی خطے میں آگ بڑھا سکتی ہے۔

ایرانی نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق حسن روحانی نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کی سلامتی، خوشحالی اور ترقی سے متعلق اسلامی جمہوریہ ایران کی اہم ذمہ داری کے پیش نظر تمام ہمسایہ ممالک کو اس ضمن میں تعمیری تعاون کی پیشکش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ جو ممالک خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کے واقعات سے متاثر ہوتے ہیں، انھیں امن کے اتحاد اور ہرمز امن منصوبے میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں۔

ایرانی صدر نے کہا ہے کہ “اتحادِ امید” کا اصل مقصد آبنائے ہرمز میں واقع تمام قوموں کی خوشحالی، ترقی اور سلامتی کو فراہم کرنا ہے۔ امریکہ عالمی بینکنگ نظام کا فائدہ اٹھا کر ڈاکو بن گیا ہے۔ ایرانی صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایران اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پر امن تعلقات کا خواہاں ہے۔ خلیجی ممالک یاد رکھیں کہ ہم انکے پڑوسی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی تجویز کردہ منصوبے میں آبنائے ہرمز اور اس آگے کے سمندری علاقوں میں آزاد اور پُرامن جہاز رانی، تیل اور توانائی تک آسانی رسائی اور تمام ممالک کو ایندھن ضروریات فراہم کرنا شامل ہیں۔

صدر روحانی نے کہا کہ خطے میں غیر ملکی فوجیوں کی قیادت میں ہر کسی قسم کے سیکورٹی اتحاد کی تشکیل چاہے کسی بھی عنوان کے تحت بھی ہو وہ بیرونی مداخلت کے مترادف ہے اور کشیدگی میں اضافہ ہونے سمیت علاقے میں قیام امن، سلامتی اور استحکام کو خطرے کا سامنا کرے گا۔

صدر روحانی نے اس بات پر زور دیا کہ خطے میں قیام سلامتی، امریکی فوجیوں کے انخلا سے فراہم ہوگی نہ کہ ان کی مداخت اور ہتھیاروں سے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ 18 سالوں کے اندر دہشتگردانہ اقدامات میں کمی نہ لاسکی تاہم اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمسایہ ممالک کے تعاون سے داعش دہشتگرد گروپ کا خاتمہ دے دیا۔

ایرانی صدر نے ہمسایہ ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمسایہ ممالک میں قیام امن و سلامتی اسلامی جمہوریہ ایران میں قیام امن و سلامتی کے مترداف ہے۔ امریکہ، آپ اور ہماری پڑوسی نہیں ہے بلکہ یہ اسلامی جمہوریہ ایران ہے جو آپ کی پڑوسی ہے۔

صدر روحانی نے مزید کہا کہ ہمیں سیکھایا گیا ہے کہ سب سے پہلے اپنے ہمسایوں پر توجہ دینی چاہیے اور پھر اپنے آپ کی طرف توجہ دینی ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دشوار حالات میں ہم اور آپ اکیلے رہیں گے؛ ہم ایک دوسرے کیساتھ ہمسایہ ہیں نہ کہ امریکہ کیساتھ۔

صدر روحانی نے پابندیاں لگانے اور دباؤ ڈالنے کے ذریعے ایران کو مذاکرات پر مجبور کرنے کی امریکی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے عوام اور حکومت کے نمائندے کے طور پر کہتے ہیں کہ ہم پابندیوں کے ہوتے ہوئے کبھی مذاکرات نہیں کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی حکومت اور عوام نے گزشتہ ڈھائی سال سے اب تک شدید پابندیوں کیخلاف مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ کبھی ان دشمنوں سے مذاکرات نہیں کریں گے جو پابندیوں، دباؤ اور غربت کی ہتھیار سے ان کو مذاکرات پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔

ایرانی صدر نے ٹرمپ انتظامیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر مذاکرات کے لئے مثبت جواب سننا چاہتے ہیں تو ایران مخالف پابندیوں کا خاتمہ دیں تا کہ مذاکرات کیلئے راستہ ہموار ہو جائے۔

ایرانی صدر نے مشرق وسطی کی صورتحال سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطی، جنگ، خونریزی، جارحیت، بیرونی قبضہ، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصب اور انتہا پسندی کی آگ میں جلتا ہے اور ایسے حالات کا سب سے بڑا شکار مظلوم فلسطینی قوم ہیں اور وہاں امتیازی سلوک، زمینوں پر قبضہ اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے۔

ایرانی صدر نے اس بات پر زور دیا کہ خطے کو ایک بہت بڑا خطرہ کا شکار ہے اور ہم بیرونی ممالک کی مشتعل انگیز اور مداخلت پر مبنی اقدامات کا برداشت نہیں کریں گے اور اپنی سرزمین اور قومی خودمختاری اور سالیمت کیخلاف ہر کسی قسم کی جارحیت کا بھر پور جواب دیں گے۔

صدر روحانی مزید کہا کہ لیکن دوسرا راستہ جو ہماری مطلوبہ راستہ بھی ہے وہی خلیج فارس اور آبنائے ہرمز میں موجود تمام ممالک اور قوموں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی ہے۔

ایرانی صدر مملکت نے آخر میں ایرانی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “آئیے جنگ اور تشدد میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے بہتر مستقبل کی امید پر سرمایہ کاری کریں”۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ “آئیے انصاف، امن، قانون، اپنے کیے گئے وعدوں اور مذاکرات کی میز پر واپس آئیں”۔

اپنا تبصرہ بھیجیں