‏“ہمارے ہاتھ مت باندھو، ایک وقت آئے گا جب ایک ایک بات کا حساب ہوگا”: محسن داوڑ

اسلام آباد (ڈیلی اردو) پاکستان کے قبائلی ضلع سے منتخب رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ضمانت پر رہائی کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کا آغاز پشتو کے شعر سے آغاز کیا۔

“زما تاڑلی لاس، او ستا درانے درانے سپیڑے

جنانہ یوہ ورز بہ ئے حساب کے راوالمہ”

ترجمہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے بندھے ہوئے ہاتھ اور آپ کے بھاری تھپڑوں کا ایک دن حساب ضرور ہوگا۔ جب ریاست میں کسی مخصوص علاقے کے لوگوں کا قتل ہو اور مقتولین کیخلاف ہی پرچہ (مقدمات) کاٹے جائیں گے، مقتولین کو ہی جیل میں ڈالے تو یہ تاثر پختہ ہو جاتا ہے کہ ریاست اپنے لوگوں کو تحفظ نہیں دے سکتی۔

انہوں نے کہا کہ اگر خڑ کمر واقعہ میں ان پر گولی چلانے کا الزام ثابت ہو جائے تو انہیں اور علی وزیر کو ڈی چوک میں پھانسی دی جائے۔ سوچیں جب ریاست قتل بھی کرے اور مقدمہ بھی اسی پر درج کرے تو یہ ایکشن لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ یہ ریاست ہماری نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ تاثر نہیں ہونا چاہئے کہ ریاست اپنے ہی شہریوں کو حقوق دینے کو تیار نہیں۔

ضلع شمالی وزیرستان کے علاقہ خڑکمر میں پیش آنیوالے واقعہ سے متعلق بات کرتے ہوئے محسن داوڑ نے کہا کہ اس واقعہ میں 15 ساتھی شہید جبکہ 40 سے زائد زخمی ہوئے تھے، اس واقعہ کے بعد انہوں نے احتجاج کیا تو حکومتی اداروں نے علی وزیر کو گرفتار کیا لیکن اسکے باوجود شمالی وزیرستان میں چار دن تک احتجاج جاری رہا۔

اپنی گرفتاری بارے بات کرتے ہوئے محسن داوڑ نے کہا کہ احتجاج کے بعد سیکیورٹی فورسز نے اسکے گائوں کا محاصرہ کیا تو انہوں نے خود اپنے آپ کو سی ڈی ڈی کے حوالہ کیا تاکہ مزید تشدد کا خطرہ ٹل جائے۔

انہوں نے تمام اپوزیشن رہنمائوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پروڈکشن آرڈر کے مطالبے پر وہ تمام سیاسی جماعتوں کے مشکور ہیں۔

محسن داوڑ نے قومی اسمبلی میں خڑکمر واقعہ کی تفصیل بھی بتائی اور کہا کہ جیسے ہی انہوں نے دوسرا بیریئر پار کیا تو پیچھے سے فائرنگ شروع ہوئی۔ ان کے ساتھیوں کو خون میں لت پت دیکھ کر پتہ چلا کہ ان پر سیدھی گولیاں برسائی جارہی تھی۔ اس واقعے میں 15 ساتھی اسی وقت شہید ہوئے لیکن الزام ان لوگوں پر لگایا جنہیں قتل کیا گیا۔ چار دن تک احتجاج جاری رہا، ایف آء آر انہی لوگوں کیخلاف کاٹی گئی جنہیں قتل کیا گیا یا زخمی ہوئے تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر اس واقعے میں ان پر یا علی وزیر کی جانب سے ایک گولی فائرنگ بھی ثابت ہوئی تو دونوں کو ڈی چوک میں پھانسی دی جائے۔

وزیراعظم خود کہتے ہیں کہ القاعدہ اور دہشتگردوں کو ہم نے بنایا ہے۔ اگر ہم کچھ کہیں گے تو ہمارے اوپر ایک اور دہشتگردی کی دفعہ لگ جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک وزیر نے ہمارے بارے میں کہا کہ ان کی ریاست سے وفاداری مشکوک ہے۔ ہمیں کسی سے وفادرای کے سرٹیفیکٹ کی ضرورت نہیں۔ جناب اسپیکر پروڈکشن آرڈر جای نہ ہونے کے باعث میں ایوان میں چار ماہ بعد آیا ہوں اب بات مکمل کرنے دیں۔

”ایس پی طاہر داوڑ قتل کیس میں ایوان میں چار بار کہا گیا کہ ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی ہے مگر کوئی پارلیمانی کمیٹی نہیں بنائی گئی۔ اسپیکر صاحب، اگر پارلیمانی کمیٹی نہیں بنائی تو اپنے وزیر شہریار آفریدی کو سمجھائیں۔“

اپنے خطاب میں انہوں نے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ شاہد خاقان عباسی کے الفاظ کہ جب تک محسن داوڑ اور علی وزیر نہیں آتے ایوان میں نہیں آئیں گے، پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

علی وزیر نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ میں اپنے خطاب میں جھوٹ نہیں بولوں گا، ان کا کہنا تھا کہ اگر جھوٹ بولا تو اسمبلی کے فلور پر استعفی دونگا۔

علی وزیر کا کہنا تھا کہ اس آپریشن میں 50 دہشتگردوں کا نام دیں کہ آپریشن میں ہلاک ہوئے ہو تو بھی میں استعفی دونگا، سارے آپریشن عوام کیخلاف ہوئے اور اس میں عوام کا نقصان ہوا۔ ریاست نے تسلیم کیا کہ اپنی پالیسیوں کی وجہ سے ماضی میں نقصان ہوا۔ ان کے خطاب کے دوران وزیر داخلہ اجلاس چھوڑ کے چلے گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں