عراق میں پرتشدد مظاہرے، جاں بحق افراد کی تعداد 30 ہو گئی

بغداد (ڈیلی اردو) عراق میں حکومتی بدعنوانیوں اور معاشی بدحالی کے خلاف مظاہرین کرفیو توڑ پر سڑکوں پر نکل آئے جب کہ تین روز کے دوران پولیس سے جھڑپوں میں جاں بحق افراد کی تعداد بڑھ کر 30 ہوگئی ہے۔

عراقی میڈیا کے مطابق کرفیو کے نافذ کے باوجود سیکڑوں مظاہرین دارالحکومت بغداد کے مشہور تحریر اسکوئر پر جمع ہوئے اور حکومت مخالف نعرے لگائے، اس دوران مظاہرین اور سیکورٹی فورسز میں جھڑپیں پی بھی ہوئیں جس میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

احتجاجی تحریک کو کچلنے کے لیے متعدد شہروں میں لگائے گئے کرفیو بھی حکومت مخالف مظاہروں میں کمی نہ لاسکے بلکہ احتجاج میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے۔

مرکزی بغداد میں خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ رات سے اس مقام پر موجود ہیں اور ڈٹ کر کھڑے ہیں جب کہ پولیس انہیں زبردستی ہٹانے میں ناکام رہی ہے۔

جنوبی شہر ناصریہ میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے گولی چلا دی ہے جس کے نتیجے میں دو افراد جاں بحق ہوگئے۔

بغداد میں پولیس اور فوج نے آج بھی مظاہرین پربراہ راست فائرنگ کی ہے اور انھیں منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کے گولے پھینکے ہیں۔ ناصریہ کے علاوہ دوسرے جنوبی شہروں میں بھی ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں اور روزگار اور بنیادی خدمات کی عدم دستیابی سے نالاں شہری اب ایک مرتبہ پھر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔

ناصریہ میں مظاہرین نے بلدیہ کی عمارت کے نزدیک آگ لگا دی۔ الکوت میں سیکڑوں افراد نے بلدیہ کی عمارت میں گھسنے کی کوشش کی اور ہلہ اور دیوانیہ میں سیکڑوں افراد نے احتجاجی ریلیاں نکالی ہیں۔ نجف اشرف میں مظاہرین کی تعداد دوسرے شہروں کے مقابلے میں کم رہی ہے۔

تیل کی دولت سے مالامال جنوبی شہر بصرہ میں ہزاروں افراد نے صوبائی انتظامیہ کی عمارت کے سامنے اکٹھے ہوکر احتجاج کیا ہے لیکن ان کی ریلی پُرامن تھی۔ سماوا میں بھی پُرامن مظاہرے ہوئے ہیں۔ شمالی شہروں کرکوک، تکریت اور مشرقی صوبہ دیالا سے بھی احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات ملی ہیں لیکن ان میں شرکاء کی تعداد کم رہی ہے۔

عراقی حکومت نے بغداد میں احتجاج کے دوران پرتشدد واقعات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

منگل کے روز عراقی حکومت کے مشترکہ بیان میں بیان میں کہا کہ بغداد میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں تین افراد جاں بحق اور سیکیورٹی فورسز کے 40 اہلکاروں سمیت 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔

بیان میں شہریوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مظاہروں کی آڑ میں قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک میں امن وامان کو برقرار رکھنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہیں گے۔

تازہ ترین پیشرفت کے مطابق الحکمہ تنظیم کے سربراہ عمار الحکیم نے بغداد میں مظاہروں کے بعد پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

عراق کے سابق وزیر اعظم حیدر العبادی کی سربراہی میں قائم ‘النصر’ اتحاد نے ایک بیان پرامن مظاہرین کے خلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کی۔

العبادی نے حکومت سے انصاف تک رسائی کے لیے مکمل تحقیقات کا آغاز کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ’ہم سلامتی ، امن اور سرکاری و نجی املاک کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں تو ساتھ ہی ہم عوامی مظاہروں کو سیاسی رنگ دینےکی کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔ مظاہروں کو کسی مخصوجماعت کے مفادات کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مظاہرے کرنے والے رہ نمائوں سے مل کر ان کے مطالبات پورے کرنے کی کوشش کرے۔

دوسری جانب ایران کی نیم سرکاری خبررساں ایجنسی مہر نے ایران کے سرحدی محافظوں کے کمانڈر جنرل قاسم رضاعی کے حوالے سے خبر دی ہے کہ خسروی اور چا زابہ کی گذرگاہ کو بدھ کی شب سے بند کردیا گیا ہے۔

عراق میں گذشتہ تین روز سے حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اور ان میں ابتک 30 افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوگئے ہیں۔

ایرانی زائرین سے متعلق امور کے ایک سینیر عہدہ دار نے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا ہے کہ خسروی کی گذرگاہ بند تھی لیکن دوسری گذرگاہیں شیعہ اور دیگر زائرین کے لیے کھلی تھیں۔

ایرانی وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فاضلی نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ تقریباً 30 لاکھ ایرانی زائرین کی اس ماہ میں عراق کے جنوبی شہر کربلا میں آمد متوقع ہے جہاں وہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے چہلم میں شرکت کریں گے۔

ادھر بغداد میں امریکی سفارت خانے نے عراق میں احتجاجی مظاہروں کے بعد سفارت خانے کے معمول کی تمام قونصلر خدمات معطل کردی ہیں۔

سفارت خانہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جب تک عراقی حکومت شہر میں نافذ کرفیو ہٹا نہیں دیتی، اس وقت تک تمام خدمات معطل رہیں گی۔

عراقی حکومت نے جمعرات کو علی الصباح بغداد میں کرفیو نافذ کردیا ہے۔ اس کے تحت شہر بھر میں تمام پیدل چلنے والوں اور گاڑیوں کی نقل وحرکت پر پابندی عاید کردی گئی ہے۔ البتہ ایمبولینس گاڑیاں اور ہوائی اڈے کی جانب جانے اور وہاں سے آنے والے مسافر اس پابندی سے مستثنا ہوں گے۔

سفارت خانے کے نوٹس میں امریکی شہریوں کو بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ مظاہروں کے علاقوں میں جانے سے گریز کریں اور موجودہ حالات میں عراق کا سفر بھی نہ کریں۔ واضح رہے کہ امریکا کے محکمہ خارجہ نے مئی میں اپنے شہریوں کے لیے سفری ہدایت نامہ جاری کیا تھا اور اس میں انھیں عراق کے غیر ضروری سفر سے گریز کی ہدایت کی گئی تھی۔

سفارت خانے نے گذشتہ تین روز کے دوران میں پُرتشدد احتجاجی مظاہروں کے بعد عراق کے تمام فریقوں سے صبر وتحمل کی اپیل کی ہے اور انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں