عراق میں حکومت مخالف مظاہرے، 5 روز میں جاں بحق افراد کی تعداد 100 ہوگئی، 4000 زخمی، 540 گرفتار

بغداد (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسیاں) عراق کے مختلف شہروں میں گذشتہ پانچ روز سے جاری احتجاجی مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز کی فائرنگ اور جھڑپوں میں جاں بحق ہونے والے مظاہرین کی تعداد 100 ہوگئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد 4000 سے زائد ہے اور 500 سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

عراقی پارلیمان کے انسانی حقوق کمیشن نے ہفتے کے روز ایک بیان میں منگل سے جاری احتجاجی مظاہروں میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 93 کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ تین ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔

اس کمیشن نے بتایا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے 540 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں قریباً 200 افراد ابھی تک زیر حراست ہیں۔ ہزاروں عراقی شہری دارالحکومت بغداد اور دوسرے شہروں میں بے روزگاری ، شہری خدمات کے پست معیار اور سرکاری حکام کی بدعنوانیوں کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔

دریں اثناء عراقی حکومت نے بغداد میں آج سے دن کا کرفیو ہٹا دیا ہے لیکن بڑے چوکوں کی جانب شاہراہیں بدستور بند ہیں تاکہ مظاہرین ان مصروف علاقوں کی جانب احتجاج کے لیے نہ جاسکیں۔

فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق عراقی سکیورٹی فورسز نے جمعہ کو بھی بغداد میں مظاہرین کے اجتماعات پر فائرنگ کی تھی۔ فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 100 ہو گئی ہے۔ نیوز ایجنسی کے مطابق زخمیوں کی تعداد 4000 سے زائد ہے۔ اے ایف پی کے مطابق عراقی حکومت نے انٹرنیٹ کو قریباً مکمل طور پر بند کردیا ہے تاکہ مظاہرین ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ نہ کرسکیں اور سکیورٹی فورسز کے تشدد کی تصاویر یا ویڈیوز پوسٹ نہ کرسکیں۔ حکومت کے اس اقدام کی وجہ سے بھی عوام کے غیظ وغضب میں اضافہ ہوا ہے۔

بااثر شیعہ لیڈر مقتدیٰ الصدر نے وزیراعظم عادل عبدالمہدی کی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ پارلیمان کے اسپیکر محمد الحلبوسی نے مظاہرین کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی آواز سنی جارہی ہے۔انھوں نے آج پارلیمان کا اجلاس بھی طلب کیا ہے تاکہ روزگار کے نئے مواقع کی تخلیق اور سماجی بہبود کے بارے میں اسکیموں پر غور کیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں