یمن جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرنیوالی سعودی شہزادی بسمہ بنت سعود 7 ماہ سے لاپتہ

برلن (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) سماجی طور پر انتہائی متحرک اور امریکا جانے کی کوشش کے دوران تحویل میں لی جانے والی سعودی شہزادی بسمہ بنت سعود 7 ماہ سے منظر عام سے غائب ہیں اور کسی سے اُن کا رابطہ نہیں ہوسکا ہے۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کو ذرائع نے بتایا کہ شہزادی بسمہ کو رواں سال مارچ میں اس وقت حراست میں لیا گیا تھا، جب وہ علاج کی غرض سے سوئٹزر لینڈ جانے والی تھیں۔ انہیں سکیورٹی اداروں نے اپنی بیٹی کے ہمراہ ملک سے فرار ہونے کے شک میں حراست میں لیا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے بعد سے سعودی حکام نے شہزادی کی بازیابی کے لیے دی گئی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔

سعودی شاہی خاندان کی شہزادی بسمہ بنت سعود کے ‘لا پتہ ہونے‘  کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کے ذرائع کے مطابق انہیں سعودی عرب کے شہر ریاض میں بغیر کسی الزام کے نظر بند کر دیا گیا ہے۔  شہزادی کے قریبی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شہزادی بسمہ ایک نامعلوم مقام سے اپنے خاندان کے ساتھ رابطے میں تھیں لیکن وہ کھل کر بات چیت نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ ان کی نگرانی کی جا رہی تھی۔

 شہزادی بسمہ طویل عرصے سے سعودی عرب سمیت پورے عرب خطے میں آئینی اصلاحات اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں۔ ان کی بیٹی سمیت نظر بندی نے سعودی خاندان میں غم و غصہ پیدا کیا ہے کیونکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو اس سے پہلے بھی اپنے ناقدین کو  دھمکانے، جیل بھیجنے اور لا پتہ کرنے کے حوالے سے الزامات کا سامنا رہا ہے۔

جرمن نشریاتی ادارے ’ڈی ڈبلیو‘ نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب کے بانی عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن کے بڑے بیٹے، سعودی عرب کے سابق بادشاہ سعود بن عبدالعزیز کی 55 سالہ صاحبزادی شہزادی بسمہ رواں برس مارچ سے لاپتہ ہیں۔ روشن خیال شہزادی بسمہ بنت سعود سعودی عرب میں انسانی حقوق اور بہتر قوانین بنانے کے لیے سرگرم تھیں۔

شہزادی بسمہ نے 2012ء میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ اس بات پر غمزدہ ہیں کہ سعودی عرب نے آئینی اصلاحات کے ان منصوبوں پر عمل درآمد نہیں کیا، جن سے بادشاہ کا منصب اور وزارت عظمیٰ کو الگ کیا جانا تھا۔ وہ 2015ء کے بعد سعودی عرب واپس آگئیں اور لندن کی اپنی کچھ کمپنیاں بھی بند کر دیں۔ 2018ء  میں انہوں نے بی بی سی عربی چینل پر یمن میں سعودی جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس کے بعد وہ میڈیا پر زیادہ نظر نہیں آئیں۔

بسمہ بنت سعود کے امریکی وکیل لیونارڈ بینیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گزشتہ برس دسمبر میں شہزادی کو علاج کے غرض سے سعودی عرب سے بیرون ملک جانے کی اجازت دلوا دی تھی تاہم عین وقت پر پرواز رکوا کر شہزادی کو تحویل میں لے لیا گیا تھا۔ شہزادی سے مارچ کے بعد سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا ہے۔

وکیل لیونارڈ بینیٹ کا کہنا ہے کہ موجودہ سعودی انتظامیہ کا خیال ہے کہ شہزادی کو ملک کے اندر رہنا چاہیے، ” کیونکہ وہ خواتین کے حقوق کی علمبردار ہیں اور اگر وہ بیرون ملک چلی گئیں تو وہ پہلے سے بھی زیادہ نڈر ہو کر بات کریں گی۔‘‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہزادی بسمہ کو ان کی روشن خیالی اور انسانی حقوق کے لیے آواز اُٹھانے کی پاداش میں نظر بند کیے جانا عین ممکن ہے، شاہی خاندان کی شہزادی بسمہ کے منظر عام سے غائب ہونے سے بے نیازی سے بھی ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے جب کہ قریبی ذرائع کا موقف بھی یہی ہے۔

جرمن نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ روایات سے بغاوت کے علاوہ شہزادی بسمہ کی کچھ سال قبل ہونے والی طلاق کے بعد بچوں کی کفالت اور جائیداد کی وراثت بھی نظر بندی کی دوسری بڑی وجہ ہوسکتی ہے، تمام تر امکانات اور خدشات کے بعد بھی تاحال بنت سعود کی نظر بندی کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

شہزادی بسمہ کے کچھ اور قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ روشن خیالی، طلاق اور وراثت کے جھگڑے کے علاوہ شہزادی کے امریکا جانے کی کوشش بھی نظر بندی کی ایک وجہ ہوسکتی ہے، تاہم حکام کو اب تک شہزادی کے فرار ہونے کیلیے ملک سے باہر جانے کے ثبوت نہیں مل سکے ہیں۔ وہ صرف علاج کے غرض سے جانا چاہتی تھیں۔

جرمن نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ کئی بار کی کوششوں کے باوجود شہزادی بسمہ کی نظربندی سے متعلق سعودی حکام سے پوچھے گئے سوالوں کے جوابات فراہم نہیں کیے گئے، جس کے باعث تحقیقی رپورٹ کو شاہی خاندان یا سعودی حکومت کے موقف کے بغیر ہی شائع کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

قبل ازیں شہزادی بسمہ کو ایک بین الاقوامی بلیک میلنگ گروپ نے مصر کے ایک اکاؤنٹ میں 3 لاکھ 20 ہزار پاؤنڈ منتقل کرنے کے کو کہا تھا بصورت دیگر گروپ ان کی بغیر حجاب اور ایک بوسہ لینے کی تصویر وائرل کرنے کی دھمکی دی تھی جو کہ ہائی جیکرز نے ان کے کمپیوٹر سے چرائی تھیں۔ شہزادی بسمہ نے بلیک میلرز سے ہونے والی ساری گفتگو یوٹیوب پر شائع کردی تھی۔

شہزادی بسمہ کی والدہ ایک شامی خاتون ہیں، بسمہ 5 سال کی تھیں جب ان کے والد شاہ سعود کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان کی شادی شاہی خاندان کے ایک فرد سے ہوئی تھی اور 2007 میں طلاق ہوگئی تھی۔ طلاق کے بعد انہوں نے سعودی عرب میں ریسٹورینٹس کا کاروبار شروع کیا جو پوری ریاست میں کامیابی سے چل رہا ہے اور اب وہ دیگر ممالک میں بھی ریسٹورینٹس کھولنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں