تہران (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسی) ایرانی پولیس اور سیکورٹی فورسز نے ملک میں حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران احتجاج کرنے والے 100 سرکردہ لیڈروں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ایرانی عدلیہ کے ترجمان نے ٹوئٹر پر کہا کہ ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب نے ملک بھر میں 100 مظاہرین لیڈروں کو گرفتار کیا ہے۔
أرسل أحد متابعي قناة "إيران إنترناشيونال" فيديو من العاصمة الإيرانية، يظهر الأجواء الأمنية وانتشار سيارات مكافحة الشغب في #طهران.#احتجاجات_إيران pic.twitter.com/rG2M5ydfCT
— إيران إنترناشيونال-عربي (@IranIntl_Ar) November 22, 2019
’ایران انٹرنیشنل عربیبک‘ چینل کے مطابق جمعہ کے روز سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مندوب اور تہران کی جامع مسجد کے خطیب احمد خاتمی نے کہا ہے کہ پر امن احتجاج ہر ایک کا حق ہے اور کسی کو پُر امن احتجاج سے نہیں روکا گیا۔ انہوں نے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی تردید کی اور کہا کہ مظاہرین کی آڑ میں ان کی صفوں میں موجود شرپسندوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے جو احتجاج کی گاڑی میں سوار ہو کرملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اپنے خطبے کے دوران پرتشدد احتجاج کرنے والوں کو “دشمن” کے ایجنٹ قرار دیا اور کہا کہ اس احتجاج اور فسادات کی منصوبہ بندی تین سال قبل کی گئی۔ فسادات کے لیے اندرون اور بیرون ملک لوگوں کو تربیت فراہم کی گئی۔ یہ دعویٰ اس وقت کیا گیا جب ایرانی عدالتی حکام نے مظاہرین کو “سخت” نوعیت کی پابندیوں میں جکڑنے کا عزم کیا ہے۔ ایرانی پاسداران انقلاب نے جمعہ کے روز اعتراف کیا کہ پہلے دن 28 صوبوں اور 100 شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ ایرانی میڈیا نے پاسداران انقلاب کے نائب کمانڈر ان چیف کے حوالے سے بتایا کہ ہم 48 گھنٹوں کے اندر بدامنی روکنے میں کامیاب ہوگئے۔
Iran's Revolutionary Guards arrest about 100 protest leaders: Iranian judiciary https://t.co/OxCSbFFreA pic.twitter.com/m9WuGOMpdS
— Reuters (@Reuters) November 22, 2019
ادھر ایران کے صوبہ اھواز میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ‘ہیومن رائٹس واچ’ کے ایک گروپ نے ملک میں مظاہروں کے دوران طاقت کے استعمال کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی انکوائری کمیشن بھیجنے، حقائق تلاش کرنے اور قصور واروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
This is what’s been happening in #Iran during the near-total internet shutdown. Security forces have shot and killed at least 106 people with complete impunity in nationwide protests. This is what they don’t want the rest of the world to see. https://t.co/M4Jw17Xj1g
— Amnesty International (@amnesty) November 21, 2019
تنظیم کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران میں احتجاجی مظاہروں کے آغاز سے ہی صوبہ اہواز کے قصبوں اور شہروں میں 60 سے زیادہ مظاہرین جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے بتایا کہ ایرانی حکام نے اہواز صوبے کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا ہے۔
Iranian authorities threaten the “maximum penalty” against 100 detained protesters in the hope of setting an example to deter others and stop the protests. So much for listening to the protesters’ message. https://t.co/Zcf1VHcxvH
— Kenneth Roth (@KenRoth) November 23, 2019
تنظیم نے ایرانی حکومت کی زیادتیوں کی مذمت کی جس کے نتیجے میں قتل عام ہوا اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ تہران پر ہلاکتوں کے اصل اعداد و شمار سامنے لانے کے لیے دباؤ ڈالے۔ ایران کی قومی مزاحمتی کونسل نے اپنی طرف سے جاں بحق اور زخمی ہونے والے مظاہروں کے بارے میں بتایا کہ ان مظاہروں کے نتیجے میں 20 شہروں میں 251 افراد جاں بحق ہوئیں، جبکہ سیکورٹی فورسز کے حملوں میں 3700 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ مزاحمتی کونسل نے تصدیق کی ہے کہ سیکورٹی فورسز نے 7000 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ تشدد کے دوران ایک 13 سالہ بچے کو بھی گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔
خیال رہے کہ ایران میں گزشتہ ہفتے اس وقت ملک گیر احتجاج کی لہر اٹھ کھڑی ہوئی تھی جب حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیموں میں 200 فیصد اضافہ کر دیا تھا۔