سقوط ڈھاکہ کو 48 سال بیت گئے

اسلام آباد (ڈیلی اردو) سولہ دسمبر 1971 سقوط ڈھاکہ وہ سیاہ دن ہے جن دن بھارت کی ناپاک سازش کامیاب ہوئی اور پاکستان سے اس مشرقی حصہ کٹ کر بنگلا دیش بن گیا جس کا درد ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔

16 ۔ دسمبر 1971 کو پاکستان دولخت ہوا، لاکھوں خاندان اجھڑے ۔ سولہ دسمبر 1971ء پاکستان کی تاریخ کا وہ منحوس دن ہے کہ جب بھارت کی سازشوں اور کچھ اپنوں کی بے وفائی سے اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک دو لخت ہو گیا۔ بلاشبہ اس دن کا سورج ہمیں شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس دلاتے ہوئے طلوع ہوتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ کے اس سیاہ باب کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یوم سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن اور رستا ہوا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر پائے گا۔ مشرقی پاکستان کی مقامی آبادی اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف دشمن کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ ہمارے 90 ہزار فوجی گرفتار ہوئے اور انہوں نے بھارت کی قید میں طویل مدت گزاری۔

1971 میں 9 ماہ تک مشرقی پاکستان میں بد ترین شورش جاری رہی، بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پاکستان میں قائم ہونے والے حمود الرحمٰن کمیشن میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ ہندوستان نے بنگلہ دیش کے قیام کے لیے مکتی باہنی (باغیوں کی تنظیم) کے 2 لاکھ سے زائد شدت پسندوں کو تربیت، ہتھیار اور مدد فراہم کی۔

ملک کی مشرقی طاقت اور مغربی حصوں میں زمینی رابطہ نہ ہونے کے باعث پاکستانی فوج کو مدد کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ مقامی سطح پر رضا کاروں کی مدد بھی حاصل کی گئی۔

قوموں کی تاریخ میں 24 سال کوئی اہمیت نہیں رکھتے مگر اتنی کم مدت میں ایک ملک کا ٹوٹ جانا اپنے اندر کئی سوال رکھتا ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ جن بنگالیوں نے 1947ء میں پاکستان بنانے کے لئے بھرپور جد و جہد کی تھی وہ قیام پاکستان کے محض 24 سال بعد پاکستان سے الگ ہونے پر کیوں مائل ہو گئے؟ بلاشبہ بھارت کی مداخلت کے بغیر مشرقی پاکستان الگ نہیں ہو سکتا تھا مگر بھارت کی مداخلت کے لئے سازگار حالات ہمارے اس وقت کے حکمرانوں نے خود پیدا کئے تھے۔

المناک پہلو یہ ہے کہ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو اس طرح فراموش کیا جیسے 16 دسمبر 1971ء کو ملک نہیں قمیض کا بٹن ٹوٹا ہو۔ 48 سال گزرنے کے باوجود نہ سقوطِ ڈھاکہ کے ذمہ داروں کا تعین ہوا اور نہ کسی کو سزا دی گئی۔ آج پھر یہ سوال ہمارے سامنے ہے کہ اس واقعہ سے ہم نے کیا سیکھا؟

خیال رہے کہ مشرقی پاکستان میں فوج کی مدد کرنے والے رضاکاروں کو سزائیں دینے کے لیے بنگلہ دیش کے قیام کے 40 سال بعد عوامی لیگ کی حکومت نے 2010 میں ایک متنازع ٹریبیونل بنایا۔

اس متنازع ٹریبیونل نے 1971 میں آزادی کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینے والی پارٹی جماعت اسلامی اور اپوزیشن کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے رہنماؤں کو نشانہ بنانہ شروع کیا۔

ٹریبیونل نے اسمبلی کے رکن اور وزیر رہنے والے جماعت اسلامی اور بی این پی رہنماؤں کو بھی سزائیں سنائیں۔

اس جنگی ٹریبیونل پر عالمی سطح پر بھی اعتراض کیا گیا کہ اس کی کارروائی متنازع ہے، تاہم بنگلہ دیش کی حکمران جماعت عوامی لیگ نے اس جنگی ٹریبیونل کی کارروائی کو شفاف بنانے کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے اور عالمی اعتراضات کو مسترد کر دیا.

گزشتہ پانچ چھ سالوں کے دوران بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے اہم ترین رہنماؤں عبد القادر ملا، محمد قمر زمان، علی احسان مجاہد اور جماعت کے امیر مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی دی جا چکی ہے جبکہ جماعت اسلامی کے سابق امیر 90 سالہ غلام اعظم کو 90 سال قید کی سزا سنائی گئی، ان کے علاوہ بھی کئی رہنماؤں کو سزائیں دی جا چکی ہیں، جماعت اسلامی کے رہنماوں کی پھانسی پر پاکستان کی جانب سے شدید احتجاج دیکھنے میں آیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں