کابل: ‏حلف برداری کی تقریب میں فائرنگ اور راکٹ حملے، افغان صدر اشرف غنی اسٹیج پر ڈٹے رہے

کابل (ڈیلی اردو) افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دو صدور، اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ، نے بیک وقت حلف اٹھا لیا۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق آج افغانستان کے نومنتخب صدر اشرف غنی نے اپنی تقریب حلف برداری مؤخر کر دی تھی، صدارتی انتخابات حتمی نتائج کے اعلان سے قبل ہی متنازعہ ہو گئے تھے۔

رپورٹس کے مطابق اشرف غنی نے ایوان صدر جب کہ عبداللہ عبداللہ نے کابل میں حلف اٹھایا، اس سے قبل دونوں سیاسی رہنما کے درمیان امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد نے مذاکراتی عمل سے تنازعے کو حل کرنے کی کوشش کی تھی۔

قبل ازیں اشرف غنی کی جانب سے حلف اٹھانے کو ملتوی کرنے کے بعد عبداللہ عبداللہ نے بھی اپنی حلف برداری کو مؤخر کر دیا تھا، تقریب حلف برداری تنازع کا شکار ہو گئی تھی جس کے بعد عبداللہ عبداللہ کو دوبارہ چیف ایگزیکٹو کا عہدہ دیئے جانے کا امکان بھی ظاہر کیا گیا تھا۔

یہ بات بھی قابل غور رہے 7 مارچ کو سابق شیعہ ہزارہ لیڈر عبدالعلی مزاری کی برسی کی تقریب پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں افغان حکومت کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی تقریب میں شریک تھے تاہم دونوں محفوظ رہے تھے، حملے میں 32 افراد شہید جبکہ 81 زخمی ہوئے تھے۔

آج بھی حلف برداری کی تقریب میں صدارتی محل پر آٹھ راکٹ فائر کئے گئے، افغان میڈیا کے مطابق حلف برداری کی تقریب کے دوران ہی آٹھ راکٹ فائر کیے گئے جس سے سراسیمگی پھیل گئی تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

اس تقریب کے دوران کابل میں فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئیں، اشرف غنی کے خطاب کے دوران پارکنگ ایریا میں بھی ایک راکٹ آکر گرا جس کے باعث تقریب میں معمولی سی بھگدڑ مچی تاہم اس دوران افغان صدر اشرف غنی ڈٹے رہے اور خطاب جاری رکھا۔

راکٹ گرنے سے افغانستان کے نائب صدر دوئم سرور دانش کی گاڑی کو نقصان پہنچا۔

افغان صدر نے خطاب کے دوران زیب تن کی ہوئی واسکٹ کو ہٹاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کوئی بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہن رکھی اور جسم پر صرف قمیض ہے، وہ عوام اور افغانستان کے لیے جان قربان کرنے کو تیار ہیں۔

اشرف غنی نے افغان طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ افغان حکومتی مذاکراتی ٹیم منگل تک بنا دی جائے گی اور امن عمل سے متعلق منگل کو صدارتی حکم نامہ جاری کیا جائے گا۔

غیرملکی خبر ایجنسی رائٹرز کے مطابق تقریب کے دوران راکٹ حملے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ (داعش) نے قبول کی ہے۔

افغان نیوز چینل طلوع نیوز کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمی خلیل زاد کی جانب سے بھی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان گزشتہ رات تک معاملات طے کرانے کی کوششیں کی گئیں تاہم ان میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

اس کے علاوہ گزشتہ رات عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے درمیان بھی علیحدگی میں ملاقات ہوئی جس میں کوئی معاہدہ نہیں ہو پایا جس کے بعد آج عبداللہ عبداللہ نے بھی صدارت کا حلف اٹھالیا۔

خود ساختہ تقریب حلف برداری کے بعد خطاب میں عبداللہ عبداللہ کا کا کہنا تھا کہ ‘ہم اپنے عزم پرقائم ہیں اور فراڈ سے بننے والی حکومت کو قبول نہیں کریں گے، ہماری حکومت آج سے کام شروع کر دے گی اور ہماری حکومت گورننس میں اصلاحات کو یقینی بنائے گی۔’

واضح رہے کہ 19 فروری کو افغانستان کے صدارتی انتخاب کے 5 ماہ بعد بالآخر اشرف غنی کو فاتح قرار دیا گیا تھا۔ افغان الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق اشرف غنی مسلسل دوسری مدت کے لیے افغانستان کے صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے مطابق اشرف غنی نے گذشتہ سال ستمبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں 50 اعشاریہ 64 فیصد ووٹ حاصل کیے جب کہ ان کے نمایاں حریف  افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ  39 اعشاریہ 52 فیصد ووٹ حاصل کرسکے۔

اشرف غنی پہلی بار 2014 میں افغانستان کے صدر منتخب ہوئے تھے اس سے قبل وہ حامد کرزئی کی حکومت میں وزیر خزانہ بھی رہ چکے ہیں۔

واضح  رہے کہ گزشتہ سال 28 ستمبر کو ہونے والے انتخاب کے نتائج کا اعلان 22 دسمبر 2019 کو کیا گیا تھا جس میں اشرف غنی فاتح قرار پائے تھے تاہم دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار عبداللہ عبداللہ نے نتائج کو مسترد کردیا تھا۔

ہاد رہے کہ ستمبر 2014 میں بھی یہی صورتحال پیش آئی تھی جس کے بعد اشرف غنی کو صدر جبکہ عبداللہ عبداللہ ملک کا پہلا چیف ایگزیکٹیو مقرر کر کرے تنازعہ حل کیا گیا تھا۔

اشرف غنی نے حامد کرزئی کی جگہ لی تھی جنھوں نے 13 برس تک افغانستان کا صدر رہنے کے بعد یہ عہدہ چھوڑا تھا۔

یہ بھی یاد رہے کہ 4 مارچ کو بھی قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے مابین ہونے والے امن معاہدے کے چار روز بعد طالبان کے تازہ حملوں میں افغان سکیورٹی فورسز کے 20 اہلکار ہلاک جب کہ امریکی فوج نے بھی طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔

یہ بھی واضح رہے کہ 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان میں امن کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کے ساتھ تاریخ رقم کر دی گئی تھی۔

امن معاہدے کے مطابق افغانستان میں القاعدہ اور داعش سمیت دیگر تنظیموں کے نیٹ ورک پر پابندی ہوگی، دہشت گرد تنظیموں کے لیے بھرتیاں کرنے اور فنڈز اکٹھا کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔

معاہدے کے مطابق امریکی فوج 14 ماہ میں افغانستان سے انخلاء مکمل کرے گی اور فریقین جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔

تاہم امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے تاریخی امن معاہدے کے چند گھنٹے بعد ہی افغان صدر اشرف غنی جنگ بندی کی اہم شرط سے پیچھے ہٹ گئے۔

افغان صدر اشرف غنی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کا کوئی وعدہ نہیں کیا، طالبان کے قیدیوں کا معاملہ افغانستان کے عوام کا حق خود ارادیت ہے۔

اشرف غنی نے کہا کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ مذاکرات کی پیشگی شرط نہیں بن سکتا، البتہ طالبان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ انٹرا افغان مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

قبل ازیں افغان طالبان نے افغان دھڑوں کے ممکنہ مذاکرات میں اتفاق رائے کی صورت میں تشکیل پانے والی مخلوط حکومت میں شمولیت پر اصولی طور پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔

تاہم صدر اشرف غنی کے معاہدے کی محولہ بالا شرط سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے افغان طالبان نے امریکا کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کے باوجود افغان فورسز کیخلاف کارروائیاں شروع کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق افغان طالبان کا کہنا تھا کہ امریکا سے ہونے والے معاہدے سے قبل جو 7 روزہ عارضی جنگ بندی کی گئی تھی اس کا دورانیہ اب ختم ہوچکا ہے لہٰذا افغان فورسز کیخلاف اپنی معمول کی کارروائیاں دوبارہ شروع کررہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں