(ڈیلی اردو/بی بی سی) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پرانے سرینگر کے حول علاقے میں جمعرات کی شب نامعلوم اسلحہ برداروں نے معروف وکیل بابر قادری کے گھر میں داخل ہو کر اُن پر فائرنگ کی اور فرار ہو گئے۔ وکیل بابر قادری کو ہسپتال پہنچانے کی کوشش کی گئی تاہم راستے میں ہی ان کی موت ہو گئی۔
37 برس کے بابر قادری کے تین بچے ہیں اور کئی سیاسی اور سماجی تنظیموں نے ان کے قتل کی مذمت کی ہے۔
بابر قادری کافی عرصے سے انڈین ٹی وی چینلز پر ہونے والے مباحثوں کے دوران کشمیر سے متعلق انڈیا اور پاکستان دونوں کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے جمعے کو ایک پریس کانفرنس کے دوران اس قتل سے متعلق تفتیش کے لیے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے اس کے لیے مسلح عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس قتل سے متعلق اہم سراغ ملے ہیں اور عنقریب اس سلسلے میں پیشرفت کی متوقع ہے۔
بابر قادری کشمیر میں بھی علیحدگی پسندوں اور ہند نوازوں کے مؤقف اور ان کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ وہ وکلا کی انجمن کشمیر بار ایسوسی ایشن سے بھی نالاں تھے اور سوشل میڈیا پر بار کی قیادت پر تنقید کرتے تھے۔
ہلاکت سے چند گھنٹے قبل ایک طویل فیس بک ویڈیو میں انھوں نے بار ایسوسی ایشن کی قیادت کو ہدف تنقید بنایا تھا۔ اس ویڈیو میں انھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ بار ایسوسی ایشن سے وابستہ بعض وکلا نے انھیں دھمکیاں دی تھیں۔
تیس سال قبل مسلح شورش شروع ہوتے ہی یہاں کے ایک معروف وکیل اور صحافی محمد شعبان کو بھی نامعلوم اسلحہ برداروں نے قتل کر دیا تھا۔
جون 2018 میں صحافی شجاعت بخاری کو سری نگر میں ان کے دفتر کے قریب نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ اس وقت پولیس حکام کا کہنا ہے تھا کہ مسلح افراد نے شجاعت بخاری پر اس وقت فائرنگ کی تھی جب وہ اپنے اخبار ڈیلی رائزنگ کشمیر کے دفتر سے اپنے دو محافظوں کے ہمراہ نکلے تھے اور اس وقت بھی پولیس نے اس حملے کا الزام کشمیری عسکریت پسندوں پر عائد کیا تھا۔
https://twitter.com/TheSkandar/status/1309137789968056320?s=19
وادی کشمیر میں گذشتہ تیس برس کے دوران کئی معروف سیاستدانوں اور سماجی کارکنوں اور صحافیوں کو نامعلوم افراد نے قتل کیا ہے۔ پولیس ہر بار عسکریت پسندوں پر الزام عائد کرتی ہے اور علیحدگی پسند حلقے اسے ایجنسیوں کی کارستانی قرار دیتے رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
بابر قادری کے قتل کی خبر آتے ہی ٹوئٹر پر کشمیری اکاؤنٹس کی طرف سے غم و غصے کا اظہار کیا جانے لگا۔
https://twitter.com/ClaireLKD/status/1309283717844799491?s=19
صحافی انورادھا بھسین نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ’میں انھیں تب سے جانتی ہوں جب وہ کشمیر یونیورسٹی میں قانوں کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ہم کئی باتوں پر ایک دوسرے سے اتفاق نہیں کرتے تھے لیکن ہمیشہ ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ گرم جوشی اور محبت سے ملتے تھے۔ گولی مار کر ہلاک کرنا۔۔۔ ان کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ میں آپ کی موت سے بہت اداس اور صدمے میں ہوں۔‘
I knew him since he was a student of Law at KU. Many of our discussions ended in disagreements but there was a level of respect. He was warm &affectionate, always. He didn't deserve to die. He didn't deserve to be shot dead! Shocked and deeply saddened by your death #babarqadri pic.twitter.com/OoHgf7bEB2
— Anuradha Bhasin (@AnuradhaBhasin_) September 24, 2020
عادل نامی صارف نے لکھا ’ایک بار پھر کشمیر میں بندوق نے قلم کو خاموش کر دیا۔‘
Again gun silenced the pen in kashmir…#BabarQadri pic.twitter.com/97LgBGdbld
— adil (@alisaif90014) September 25, 2020
صحافی شمس عرفان نے لکھا ’نوے کی دہائی سے ہزاروں کشمیری نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے ہیں۔ اتنا وسیع نگرانی کا نظام موجود ہے کہ ہماری ہر سانس کو ٹریک کیا جاتا ہے تو پھر ان کی شناخت کیوں ممکن نہیں؟‘
Since 1990s thousands of Kashmiris fell victim to the bullets of “unknown gunmen”. With such a vast surveillance system in place, which keeps track of every breath we take, why can’t they be identified??? #BabarQadri
— Shams Irfan (@ShamsIrfan27) September 24, 2020
کشمیری کارٹونسٹ میر سہیل نے بابر قادری کا ایک خاکہ ٹویٹ کیا اور لکھا: ’کشمیر نے ایک اور معصوم جان گنوا دی۔ بابر قادری، وکیل۔‘
https://twitter.com/mirsuhail/status/1309170608392073225?s=19
بابر قادری کا نام لیے بغیر کارٹونسٹ اور مصور سہیل نقشبندی نے بھی ایک کارٹون ٹویٹ کیا جس میں انھوں نے لکھا ’نامعلوم افراد، نامعلوم قبریں، شناختی پریڈ، شناختی کارڈ، اور غلط شناخت۔‘
https://twitter.com/hailsuhail/status/1309466979359547392?s=19