ایرانی جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو ’اسرائیلی انٹیلیجنس موساد‘ نے قتل کروایا

واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو/روئٹرز) ایران کے انتہائی اہم جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو گزشتہ نومبر میں تہران میں ’اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی موساد‘ نے قتل کروایا تھا۔ یہ بات برطانیہ سے شائع ہونے والے ایک جریدے نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھی ہے۔

برطانیہ سے شائع ہونے والے ہفت روزہ جریدے ‘جیوئش کرونیکل‘ (Jewish Chronicle) نے اپنی بدھ 10 فروری کی اشاعت میں شامل کردہ ایک رپورٹ میں بتایا کہ گزشتہ برس نومبر میں ایرانی دارالحکومت میں ملکی جوہری پروگرام کی ایک انتہائی اہم شخصیت اور معروف سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل کا واقعہ اسرائیلی فارن انٹیلیجنس ایجنسی موساد کی کارروائی تھا۔

ساتھ ہی اس جریدے نے یہ بھی لکھا کہ فخری زادہ کو ایک ایسی مخصوص گن سے فائرنگ کر کے نشانہ بنایا گیا، جس کو مختلف حصوں کی صورت میں موساد نے ہی ایران میں اسمگل کروایا تھا۔

فخری زادہ کی آٹھ ماہ تک خفیہ نگرانی

اس برطانوی جریدے نے نام لیے بغیر انٹیلیجنس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ محسن فخری زادہ کی ٹارگٹ کلنگ منصوبے پر کامیابی سے عمل درآمد ایک ایسی ٹیم کے ذمے تھا، جس میں 20 سے زیادہ ایجنٹ شامل تھے جن میں اسرائیلی اہلکار بھی تھے اور ایرانی شہری بھی۔

مزید یہ کہ فخری زادہ کو نشانہ بنانے سے پہلے ان کی آٹھ ماہ تک باقاعدہ خفیہ نگرانی بھی کی گئی تھی۔

اس بارے میں نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ اس کے نامہ نگار فوری طور پر خود لندن سے شائع ہونے والے جریدے ‘جیوئش کرونیکل‘ کی اس رپورٹ کے مندرجات کی تصدیق نہیں کر سکے۔

جہاں تک فخری زادہ کے قتل کے واقعے کا تعلق ہے، تو یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ایرانی جوہری سائنسدان کو تہران میں ان کی گاڑی میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ انہیں زخمی حالت میں ہسپتال پہنچا دیا گیا تھا جہاں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔

ایرانی الزام اور اسرائیلی موقف

محسن فخری زادہ کے قتل کے کچھ ہی دیر بعد ایران نے کھل کر اشارہ حریف ملک اسرائیل کی طرف ہی کیا تھا۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا تھا کہ اس قتل میں ‘اسرائیلی کردار کے سنجیدہ اشارے‘ موجود ہیں۔

59 سالہ فخری زادہ کے قتل کے بعد اسرائیل کی طرف سے گزشتہ نومبر میں بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا تھا اور ‘جیوئش کرونیکل‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے بعد بھی اسرائیلی حکومت نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

اس بارے میں اسرائیلی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا، ”ہم ایسے معاملات پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے اور اس سلسلے میں ہماری پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں