بہاولنگر کا ’ابو جندل‘: کشمیر ’جہاد‘ سے کرائے کا قاتل بننے کا سفر

گوجرانوالہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) یونان کے فلسفی ارسطو نے کہا تھا کہ جرم اور انقلاب دونوں ہی کی بنیاد غربت ہے۔ صوبہ پنجاب کے ضلع بہاولنگر کے طاہر کی زندگی میں غربت تو تھی ہی مگر انقلاب اور جرم بھی اس کا حصہ بن گئے۔

’غربت کی وجہ سے کوئی شخص مسلح جہادی تنظیم سے منسلک ہو جاتا ہے۔ لیکن عالمی دباؤ کی وجہ سے اس تنظیم سے الگ ہو جاتا ہے اور وہ جرم کی دنیا میں قدم رکھتا ہے۔ خدا کے نام پر لوگوں کو نشانِ عبرت بنانے کے بجائے اب وہ ایک کرائے کے قاتل (ہٹ مین) کے طور پر ابھرتا ہے جو چند ہزار روپے کے عوض لوگوں کو قتل کرنا اپنا پسندیدہ مشغلہ اور ذریعہ معاش بنا لیتا ہے۔‘

یہ کسی جاسوسی ناول کی تحریر سے لیا گیا اقتباس ہرگز نہیں بلکہ حال ہی میں گوجرانوالہ میں کامونکی تھانہ صدر کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے ایک ایسے مبینہ کرائے کے قاتل ملزم کے بارے میں وہ انکشافات ہیں جو دوران تفتیش خود ملزم نے پولیس سے کیے۔

گوجرانوالہ کی تحصیل کامونکی کے تھانہ صدر کے ایس ایچ او انسپکٹر عارف خان نے بی بی سی کو بتایا کہ چند ہزار روپے کے عوض کرائے پہ قتل کرنے والے ملزم طاہر عرف ابو جندل کو گرفتار کیا گیا ہے جو گذشتہ ایک دہائی سے قتل کی مختلف وارداتوں میں ملوث رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ طاہر مبینہ طور پر 11 لوگوں کے قتل میں ملوث ہے جس میں سے پانچ قتل اس نے ’اپنے آبائی شہر بہاولنگر میں ہی کیے تھے۔‘

ایس ایچ او عارف خان کے مطابق ملزم طاہر نے 21 نومبر 2020 کو دیگر ساتھیوں کی مدد سے 20 ہزار روپے کے عوض المعراج کٹ، کامونکی میں تین لوگوں کو اس وقت قتل اور دیگر تین کو زخمی کیا جب وہ فیروز والا کچہری سے پیشی کے بعد واپس لوٹ رہے تھے۔

مگر گرفتار ملزم طاہر کرائے کا قاتل کب اور کیسے بنا، ان سوالات کے جوابات کی تلاش میں ملزم سے جڑی ہوئی کئی چونکا دینے والی باتوں کا انکشاف ہوا ہے۔

‘ملزم طاہر لشکر طیبہ، کشمیر جہاد سے منسلک’

کیس کی تفتیش پر مامور ایک سینیئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ملزم طاہر ماضی میں لشکر طیبہ سے منسلک رہا ہے اور اس نے لشکر طیبہ کے مریدکے مرکز سے اسلحہ چلانے کی تربیت حاصل کر رکھی تھی۔

سینیئر پولیس افسر کے مطابق، ملزم طاہر لشکر طیبہ کے مریدکے مرکز سے اسلحہ اور دیگر تربیت حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصہ جہادی تنظیم کے سربراہ حافظ محمد سعید کا سکیورٹی گارڈ بھی تعینات رہا جس کے بعد وہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ‘جہاد’ کی غرض سے چلا گیا۔

پولیس ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ طاہر کشمیر جہاد سے واپسی پر ’جرم کی دنیا میں شامل ہوگیا۔‘ سینیئر پولیس افسر کے مطابق ملزم طاہر اسی وقت جہادی تنظیم سے علیحدہ ہوکر جرم کی دنیا میں آیا جب 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد تنظیم پر براہ راست عالمی دباؤ پڑا اور ریاست کو اس تنظیم کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا پڑ گیا۔

پولیس افسر کے مطابق، جہادی تنظیم سے منسلک بہت سے تربیت یافتہ افراد اس مشکل وقت میں ادھر ادھر بھاگے اور دیگر کاموں میں پڑ گئے۔

انتہائی غریب گھرانے سے

ایس ایچ او عارف خان کے مطابق، ملزم طاہر کا تعلق بستی منگوپورہ نئی آبادی منچن آباد ضلع بہاولنگر کے ایک انتہائی غریب گھرانے سے ہے جو زیادہ تر اپنا روزگار تعمیراتی کاموں میں روزانہ کی اجرت کی بنیاد پر کام کر کے کماتا تھا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ملزم طاہر کے پانچ بھائیوں میں سے دو معذور ہیں جو بول نہیں سکتے۔

عارف خان کے مطابق ملزم طاہر شادی شدہ ہے لیکن اس کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ ان کے مطابق ملزم نے انھیں بتایا ہے کہ وہ انڈیا کے خلاف جہاد کرنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے وہ 2007 میں لشکر طیبہ کے مریدکے مرکز چلا آیا۔

جرم کی دنیا میں قدم

بی بی سی کو موصول پولیس تفتیش رپورٹ کے مطابق طاہر نے دوران تفتیش بتایا ہے کہ اس نے لشکر طیبہ کے پلیٹ فارم سے جہادی ٹریننگ حاصل کی تھی اور کچھ عرصہ ’جہاد‘ بھی کرتا رہا۔ پولیس تفتیش رپورٹ کے مطابق، 2009 میں جب ملزم طاہر ’جہاد‘ سے واپس لوٹا تو اس نے بہاولنگر میں مبینہ طور پر خادم حسین اور شوکت لالیکا پارٹی کے پانچ افراد کو قتل کر کے جرائم کی دنیا میں قدم رکھا۔

سنہ 2009 میں ہی تھانہ حویلی لکھاں میں ایک گھر میں چوری کے دوران ایک عورت کو زخمی کرنے کی ایف آئی آر بھی ملزم طاہر کے خلاف درج ہوئی۔ اس کے بعد 2009 میں ہی تھانہ آلہ آباد میں ڈکیتی کی ایک واردات کے دوران ملزم طاہر نے ’پولیس ریڈ کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار کو قتل کردیا۔‘

ایس ایچ او عارف خان کے مطابق ملزم طاہر مختلف مقدمات میں ملوث ہونے کی وجہ سے جنوبی پنجاب سے بھاگ کر قلعہ میاں سنگھ، گوجرانوالہ چلا آیا جہاں ’اپنے ایک دوست کی مدد سے وہ بندیشہ خاندان کا سکیورٹی گارڈ بن گیا کیونکہ بندیشہ خاندان کی قلعہ میاں سنگھ میں ہی ایک کشمیری خاندان سے پرانی دشمنی چل رہی تھی جس میں اب تک بندیشہ برادری کے 11 کے قریب جبکہ کشمیری برادری کے چھ کے قریب لوگ قتل ہوچکے ہیں۔‘

2011 میں سلیم بندیشہ کے ڈیرے پر بطور گن میں ملزم طاہر ایک کیس میں گرفتار بھی ہوا۔ وہ یہاں 2014 تک جیل میں قید رہا۔

ایس ایچ او عارف خان کے مطابق، ’رہائی کے بعد بھی ملزم طاہر جرائم کی وارداتوں میں ملوث رہا‘ اور 2016 میں ’سی ٹی ڈی راولپنڈی نے اس کے قبضے سے دھماکہ خیز مواد بھی برآمد کیا اور دہشت گردی کے اس مقدمے میں ملزم طاہر کو 42 سال قید کی سزا ہوئی لیکن وہ جنوری 2020 میں ہی ہائی کورٹ سے رہا ہوگیا۔‘

جیل سے دوسری مرتبہ رہائی کے بعد ملزم طاہر نے ایک بار پھر جرائم کی دنیا میں قدم رکھا اور نومبر 2020 میں کامونکی میں اپنے دیگر ساتھیوں کی مدد سے تین لوگوں کو قتل اور تین کو زخمی کردیا۔ ایس ایچ او کے مطابق اس کام کے لیے ملزم طاہر نے ’20 ہزار روپے وصول کیے تھے۔‘

طاہر کی گرفتاری کیسے ممکن ہوئی؟

طاہر کی گرفتاری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایس ایچ او عارف خان نے بتایا کہ انھوں نے ملزم کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے گرفتار کیا ہے۔ جب ہم تین لوگوں کے قتل کی تفتیش کر رہے تھے تو پہلی بار ’جیو فینسنگ کی مدد سے طاہر کا سراغ ملا۔‘

’فیروز والا کچہری سے جائے وقوعہ تک ملزم طاہر کا نمبر اسی راستے پہ ٹریس ہو رہا تھا جہاں سے مقتول سفر کر رہے تھے۔‘

’جب طاہر کا نمبر بار بار جائے وقوعہ پر سامنے آیا تو اس کے بارے میں ریکی شروع کی اور چونکہ ملزم ریکارڈ یافتہ تھا اور جیل بھی جاچکا تھا اس لیے اسے پکڑنے میں ’زیادہ مشکل نہیں ہوئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ طاہر ہمیشہ اپنے ساتھ ایک قرآن رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ ’برائی مٹانے کے مشن پر ہے اور اس کی خواہش ہے کہ وہ اﷲ کی راہ میں شہید ہو۔‘

ایس ایچ او کے مطابق عام طور پر ’کرائے کے قاتلوں کو پکڑنا خاصا مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ لوگ ایسے ملزمان سے چند ہزار روپے کے عوض اپنے مخالفین کو مروانے کا کام لیتے ہیں لیکن ایف آئی آر میں ایسے ملزمان کا نام سامنے نہیں آتا کیونکہ متاثرہ پارٹیاں ہمیشہ اپنے مخالفین کے خلاف ہی قانونی کاروائی کا کہتی ہیں اور ایسے لوگ نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔‘

ایس ایچ او عارف خان کے مطابق، طاہر کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے جس کے بعد ہوسکتا ہے کہ سی ٹی ڈی بھی اسے پوچھ گچھ کے لیے اپنی تحویل میں لے۔

ایک سینیئر پولیس افسر کے مطابق ماضی میں لشکر طیبہ سے منسلک ملزم طاہر کے ایک ساتھی عبد اﷲ کو بھی تلاش کر رہے ہیں جو اس کے ساتھ لشکر طیبہ کے مریدکے مرکز میں ساتھ رہا اور مبینہ طور پر کامونکی میں تین افراد کے قتل کی واردات میں بھی ملوث ہے۔

اس پولیس اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اب تک کی تفتیش سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ طاہر جرم کی دنیا کی طرف غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے ہی آیا کیونکہ ’ایسے لوگ جب کسی مسلح تنظیم کا حصہ ہوتے ہیں تو ان کی دوسری ضروریات کے ساتھ ساتھ ان کی معاشی ضروریات کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی پوری توجہ ‘مشن’ پہ دے سکیں لیکن جب وہ تنظیمیں انھیں چھوڑ دیتی ہیں تو ان کا ایسے جرائم میں ملوث ہونا آسان ہو جاتا ہے۔‘

سابقہ جنگجو جرم کی دنیا کا انتخاب کیوں کرتے ہیں؟
نامور سکیورٹی ماہر اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ طاہر عرف ابو جندل کا پکڑا جانا کوئی نئی بات نہیں جس میں ایک جہادی تنظیم سے منسلک شخص بطور ہٹ مین سامنے آیا ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ 90 کی دہائی میں بھی کئی ایسے لوگ پکڑے گئے جو ایسی مسلح تنظیموں سے وابستہ رہے اور بعد میں مختلف جرائم میں بھی ملوث ہو گئے۔

عامر رانا کے بقول 2008 کے ممبئی حملوں کے نتیجے میں بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے لشکر طیبہ پر کریک ڈاؤن سے اس جہادی تنظیم سے وابستہ بہت سے جہادی ‘روزگار’ کے لیے دیگر کاموں میں پڑ گئے۔ ان میں ’کچھ کو تو نجی بنکوں نے اپنی ریکوری کے کام پر رکھ لیا، کچھ ریسکیو سروس میں ایڈجسٹ ہو گئے، کچھ زمینوں پہ قبضوں میں ملوث ہو گئے اور کچھ مبینہ طور پر ہٹ مین بن گئے۔‘

عامر رانا کا کہنا تھا کہ ’ریاست نے جن جن مسلح گروہوں کو قید میں رکھا ہوا ہے ان کے تربیت یافتہ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے لیکن ریاست کی طرف سے ابھی تک بہت کم لوگوں کو ہی ایڈجسٹ کیا گیا ہے جبکہ اس مسئلے پہ بہت سے باتیں اور نشستیں تو ہوئی ہیں لیکن عملی طور پر کام بہت تھوڑا ہی ہوا ہے۔‘

عامر رانا کے مطابق ماضی کے دہشت گردی کے واقعات اور ان میں مبینہ طور پر لشکر طیبہ (جماعت الدعوتہ) کے ملوث ہونے اور اب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی کڑی شرائط کے نتیجے میں جہاں جہادی گروپس پر دباؤ بڑھا ہے وہیں انھوں نے بھی اپنے ایسے تربیت یافتہ عناصر کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا ’جب ریاست نے ایسے گروپس کے خلاف ایکشن لیا تھا تو ایسے تربیت یافتہ اور مسلح عناصر کی مناسب دیکھ بھال کی ضرورت تھی اور ان کی بحالی کے کوئی منصوبے ہونے چاہییں تھے تاکہ وہ ایسے جرائم میں نہ پڑتے لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور انھیں ایسے ہی چھوڑ دیا گیا۔‘

عامر رانا کے مطابق ’ایسے تربیت یافتہ اور مسلح افراد اگر طالبان، نام نہاد دولت اسلامیہ یا دیگر گروپس کے ساتھ وابستہ ہوجاتے ہیں تو پاکستان اور اس کے سکیورٹی اداروں کے لیے بھی کئی مسائل پیدا ہو جائیں گے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں