بنوں دھرنا ختم: ’جانی خیل میں گُڈ اور بیڈ طالبان کو نہیں چھوڑیں گے‘: وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں میں جانی خیل کے قبائلی مظاہرین اور حکومت کے درمیان مذاکرات پیر کے روز کامیاب ہوگئے ہیں اور اب قتل ہونے والے چار نوجوانوں کی تدفین ان کے آبائی علاقی میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

صوبائی وزیر کامران بنگش نے حکومت اور قبائلی رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مظاہرین کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں اور ’تمام شرکا کو واپس جانے کی ہدایات‘ کی گئی ہے۔

یہ دھرنا ایک مارچ کی صورت میں ضلع بنوں میں لنک روڈ پر ادھمی پل تک پہنچ گیا تھا اور اس کی منزل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد تھی، مگر موقعے سے موصول ہونے والی تازہ ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جانی خیل کے مظاہرین اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔

یاد رہے کہ جانی خیل سے تعلق رکھنے والے چار نوجوان تقریباً 27 روز قبل شکار کے لیے گئے تھے اور لاپتہ ہوگئے تھے تاہم 21 مارچ کو ان کی مسخ شدہ لاشیں ملی تھیں۔

مظاہرین کو روکنے کے لیے بنوں کے بعض مقامات پر انٹرنیٹ سروس معطل اور سڑکوں پر رکاوٹیں لگائی گئی تھیں۔

‘جانی خیل میں گڈ اور بیڈ طالبان کو نہیں چھوڑیں گے’

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمدد خان، جو مذاکرات کے لیے بنوں پہنچے تھے، نے اپنے 29 مارچ کے بیان میں کہا ہے کہ ’کمشنر بنوں نے جرگہ ہال میں مظاہرین سے ملاقات کی اور جانی خیل کے علاقے کے لوگوں کے لیے امن قائم کرنے کے لیے کچھ مطالبات مان لیے ہیں۔

حکومت نے ہلاک ہونے والے چاروں نوجوانوں کے خاندان کے لیے فی کس 25 لاکھ کا اعلان کیا ہے اور جانی خیل میں امن قائم کرنے کے لیے تین ماہ کا وقت مانگا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ چار نوجوانوں کی ہلاکت کی شفاف انکوائری کی جائے گی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جانی خیل میں جو شر پسند عناصر ہیں، چاہے وہ گڈ طالبان ہیں یا بیڈ طالبان ہیں، ان کو نہیں چھوڑیں گے۔‘

اس دھرنے میں موجود ڈاکٹر گل عالم وزیر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’فیصلہ قوم کرے گی، اگر قوم مذاکراتی ٹیم سے متفق ہوئی تو دھرنا ختم کردیا جائے گا اور سب پُرامن طریقے سے واپس جائیں گے۔

’اور اگر قوم نے اتفاق نہ کیا تو اس کے بعد قوم ہی فیصلہ کرے گی کہ آیا مظاہرین اسلام آباد کی جانب آگے بڑھیں گے۔‘

صحافی محمد زبیر خان کے مطابق مارچ کے شرکا نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب اسی مقام پر کھلے آسمان تلے اپنی گاڑیوں میں گزاری جبکہ ناشتہ بھی اسی مقام پر کیا گیا ہے جو مقامی لوگوں نے انھیں فراہم کیا ہے۔

پولیس نے انڈس ہائی وے پر رات ہی سے کئی مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردی تھیں۔ بنوں سے ملحق اضلاع کرک، کوہاٹ اور دیگر میں بھی سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے۔

اتوار کو پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ بھی اسلام آبار اور پشاور سے الگ الگ روانہ ہوئے تھے لیکن انھیں پولیس نے روک کر حراست میں لے لیا تھا۔

اتوار کو پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم

اتوار کی صبح ضلع بنوں میں جانی خیل کے مقام پر چار نوجوانوں کے قتل کے خلاف جاری دھرنے کے منتظمین نے دارالحکومت اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تاہم اسلام آباد روانہ ہونے والے قافلے کا دو کلومیٹر سفر طے کرنے کے بعد ہی دریائے ٹوچی کے مقام پر پولیس کے ساتھ تصادم ہوا تھا۔

مظاہرین رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے بنوں شہر سے آگے نکل کر کوہاٹ روڈ تک پہنچے تھے۔

قبائلی رہنما ملک موید جانی خیال کے مطابق اتوار کی صبح ہونے والے مذاکرات ناکام ہوئے تھے جس کے بعد اُنھوں نے اسلام آباد کی جانب اپنا سفر شروع کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ مشران جرگہ کے لیے دومیل کے مقام پر موجود ہیں۔ ’راستے میں رکاوٹیں ہیں، پولیس ہم پر شیلنگ اور آنسو گیس پھینک رہی ہے۔ شاید ان حالات میں دوبارہ جرگہ شروع کرنا ممکن نہ ہو۔‘

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے بنوں میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک چیلنج ہے لیکن ’ہم اس چیلنج سے منھ نہیں موڑیں گے اور فورینزک اور تفتیشی ماہرین کے ذریعے واقعے کی تحقیقات کروائیں گے اور اس مقصد کے لیے تمام ذرائع اور وسائل بروئے کار لائیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اُن کی حکومت کا عزم ہے کہ وہ اس واقعے کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔ ’تحقیقات میں وقت لگتا ہے لہٰذا متاثرین سے درخواست ہے کہ صبر کا دامن نہ چھوڑیں۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جانی خیل محب وطن اور ملک کے وفادار لوگ ہیں اور وہ جانی خیل قوم کے مشران کو مکمل اعتماد میں لیں گے۔ محمود خان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ جانی خیل قوم کے مشران اس واقعے کو کسی اور مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔‘

بنوں سے مقامی صحافی ضمیر عالم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ تصادم اس وقت شروع ہوا جب مظاہرین نے دریائے ٹوچی سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو پولیس نے انھیں روکا جس پر لانگ مارچ میں شامل بچوں نے پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ جواب میں پولیس نے مظاہرین کو روکنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی۔

ضمیر عالم کے مطابق جانی خیل دھرنے کے مظاہرین بنوں کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے تو بنوں پولیس نے تمام راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے راستہ بند کر دیا تھا جس کے بعد پولیس کی جانب سے شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی گئی۔

بنوں سے صحافی محمد نعمان کے مطابق شہر میں کئی مقامات پر پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری تعینات تھی۔

محمد نعمان کے مطابق مظاہرین نے قتل کیے جانے والے نوجوانوں کی لاشیں ٹریکٹر ٹرالی پر رکھی ہیں اور اس قافلے میں تقریباً 10 ہزار افراد کاروں اور موٹر سائیکلوں پر سوار ہیں اور کئی افراد قافلے کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے۔

ڈپٹی کمشنر بنوں محمد زبیر نیازی نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت انتظامیہ کوشش کر رہی ہے کہ امن و امان کو بحال رکھے۔ ’ہم لوگ کوشش کررہے ہیں کہ یہ کسی ایک مقام پر رک جائیں اور ان سے مذاکرات کیے جائیں۔‘

محمد زبیر نیازی نے دعویٰ کیا کہ ایک دو جو ناخوشگوار واقعات ہوئے ہیں وہ پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے شرکا کی طرف سے کیے گئے حملوں کے جواب میں امن و امان بحال رکھنے کی کوشش میں ہوئے۔

ڈپٹی کمشنر بنوں کا کہنا تھا کہ وہ کسی مقام پر رکاوٹ نہیں کھڑے کر رہے ہیں۔

’حکومت ہمارا راستہ نہ روکے‘

مظاہرین کی قیادت کرنے والے ایک مشر ملک موید خان وزیر نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بنوں پولیس کی جانب سے سڑکوں پر لگائی گئی کچھ رکاوٹیں ہٹائی ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم اس وقت پولیس کی بھاری نفری نے مظاہرین کو روکا ہوا ہے اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جاری ہے۔

ان کہنا تھا کہ قبائل پولیس ایکشن کے سبب سخت غصے میں ہیں اور مشران نے ان کو قابو کیا ہوا ہے۔ ’ہم حکومت سے کہتے ہیں کہ ہمارا راستہ نہ روکے، ہم پر امن لوگ ہیں اور احتجاج ہمارا بنیادی حق ہے، یہ حق ہم سے نہ چھینا جائے۔‘

انھوں نے بتایا کہ مشران، حکومتی اور انتظامیہ کے نمائندے پہنچ چکے ہیں اور ان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ’جرگہ کامیاب ہوگا یا نہیں اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘

ملک موید کا کہنا تھا کہ ’سات دن سے ہم لاشیں رکھ کر بیٹھے تھے اور ہمیں قتل ہونے والے نوجوانوں کے بدلے پیسے لینے کا کہا جا رہا تھا لیکن ہم نے ان سب کو انکار کیا ہے کیونکہ ہمیں پیسے نہیں امن چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2009 سے اب تک ہم نے تقریباً 1000-1100 لاشیں اٹھائیں ہیں ’ہمارے نوجوانوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو کبھی کسی بہانے سے اور کبھی کسی بہانے سے مارا جا رہا ہے۔۔ ہم آئے روز لاشیں اٹھا رہے ہیں۔‘

ملک موید خان کا کہنا تھا کہ جانی خیل ایک چھوٹا سا علاقہ ہے اور یہاں فوج کی 9-10 چیک پوسٹیں بنائی گئی لیکن امن پھر بھی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے مطالبات بڑے واضح ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے علاقے سے فوج کی چیک پوسٹیں ختم کی جائیں پھر ہم خود اپنے علاقے میں امن قائم کر لیں گے۔‘

پولیس کے مطابق چاروں لڑکوں کی لاشیں جانی خیل کے علاقے میں ایک ندی کے قریب قبرستان سے ملی تھیں

’چار قتل شدہ لاشیں زمین میں دفن ہوئی ملیں‘

پولیس کے مطابق چاروں نوجوانوں کی عمریں تیرہ سال اور سترہ سال کے درمیان تھیں اور ان کی لاشیں جانی خیل کے علاقے میں ایک ندی کے قریب قبرستان سے ملی تھیں۔

ان لڑکوں کی شناخت احمد اللہ خان، محمد رحیم، رفعام اللہ اور عاطف اللہ کے ناموں سے کی گئی تھی۔

احمد اللہ کے چچا سبحان ولی نے بی بی سی کو بتایا کہ چاروں نوجوان شکار کے لیے گئے تھے، ان کے ساتھ کتے بھی تھے۔ لیکن نوجوان واپس گھروں کو نہیں آئے۔ ان نوجوانوں کے رشتہ داروں اور علاقے کے لوگوں نے ان کی تلاش کی لیکن کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔

ان کا کہنا تھا کہ پھر ایک چرواہا اس علاقے میں مویشی لے کر گیا تو وہاں آوارہ کتوں نے زمین میں لاشوں کی نشاندہی کی جس پر اس بارے میں علاقے کے لوگوں کو بتایا گیا۔ اس اطلاع پر ان افراد کے اہل خانہ اور دیگر مقامی لوگ موقع پر پہنچے اور لاشوں کی شناخت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی ‘کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور نہ ہی انھیں معلوم ہے کہ ان نوجوانوں کو کس نے مارا ہے’، اس لیے وہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان قاتلوں کو منظر عام پر لایا جائے۔

اس واقعے کے بعد سے علاقے میں سوگ ہیں۔ چاروں لڑکوں کی لاشیں جانی خیل میں قلعے کے سامنے رکھ کر دھرنا دیا جا رہا ہے۔ آج بنوں انتظامیہ سے مظاہرین کے مذاکرات ہوئے ہیں لیکن اب تک اس کا فیصلہ نہیں ہوا کہ دھرنا جاری رہے گا یا دھرنا ختم کر دیا جائے گا۔ ان چاروں لڑکوں کے رشتہ دار، اہل علاقہ اور قریبی علاقے کے لوگ بھی دھرنے میں شامل ہو گئے ہیں۔

ان نوجوانوں کے بارے میں مقامی لوگوں نے بتایا کہ انھیں شکار کرنے اور مقامی کھیل کھیلنے کا شوق تھا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ اکثر چڑیا اور خرگوش کے شکار کے لیے چلے جاتے تھے۔

ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے ایک کے والد کراچی میں اور دو کے والد مقامی سطح پر مزدوری کرتے ہیں، جبکہ ایک کے والد کی وفات ہوچکی ہے اور ان کے ایک بھائی روزگار کے لیے بیرون ملک کام کرتے ہیں۔

مقامی پولیس اہلکاروں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ انھیں ایسی اطلاع موصول ہوئی تھیں کہ مقامی لوگوں کو علاقے میں ایک قبرستان میں چار قتل شدہ لاشیں زمین میں دفن ہوئی ملی ہیں۔ پولیس کے مطابق ‘ایک لاش کا سر نہیں ہے’ اور ‘باقی کی شناخت نہیں ہو پا رہی تھی۔‘

پولیس نے احمد اللہ کے چچا کی طرف سے درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور اب تک انھیں پتا نہیں چل سکا کہ نوجوانوں کو کس نے قتل کیا ہے۔

’ہمارے علاقے میں اب یہ خون کا کھیل بند ہو جانا چاہیے‘

ضلع بنوں صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں کی سرحد پر واقع ہے۔ جانی خیل بنوں شہر سے کوئی 25 کلومیٹر دور واقع ہے اور اس کی سرحد شمالی وزیرستان سے ملتی ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں ‘اچھے اور برے شدت پسندوں کی اصطلاح کا استعمال عام ہے۔’

ان کے مطابق اچھے شدت پسند وہ ہیں جو ‘حکومت کے ساتھ’ ہیں جبکہ برے شدت پسند ‘حکومت کے خلاف’ بتائے جاتے ہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسے ‘گُڈ طالبان اینڈ بیڈ طالبان۔‘

جانی خیل کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں تشدد کے واقعات ایک عرصے سے پیش آ رہے ہیں اور انھیں شکایت ہے کہ حکام اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہے۔

ہلاک ہونے والے نوجوان احمد کے چچا ڈاکٹر سبحان ولی کا کہنا ہے کہ ‘اب یہ خون کا کھیل بند ہو جانا چاہیے۔’

انھوں نے کہا کہ 10 سال کے عرصے سے آئے روز کسی نہ کسی کے قتل کی اطلاع ملتی رہتی ہے لیکن اب ان ‘چار معصوم بچوں کے قتل نے پورے علاقے میں کہرام برپا کر دیا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ جانی خیل میں ہر فرد غمزدہ ہے اور ہر انسان کی آنکھ میں آنسو ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس احتجاج میں ‘پورے علاقے کے لوگ پہنچ گئے ہیں۔’

خیال رہے کہ رواں سال فروری میں شمالی وزیرستان میں ان چار خواتین کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا جو ایک غیر سرکاری تنظیم کے لیے کام کر رہی تھیں اور مقامی خواتین کو مختلف ہنر سکھاتی تھیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں