افغانستان سے امریکہ کی فوج کا 90 فیصد انخلا مکمل

واشنگٹن (ڈیلی اردو) امریکہ کی سینٹرل کمانڈ نے منگل کو اعلان کیا ہے کہ افغانستان سے فوج کا انخلا 90 فیصد مکمل ہو گیا ہے۔

یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کچھ روز قبل ہی امریکہ اور بین الاقوامی فورسز نے بگرام اڈے کو خالی کیا ہے۔ یہ اڈہ طالبان کو اقتدار سے ہٹانے اور القاعدہ کے خاتمے کے لیے امریکہ کی کارروائیوں کا مرکز رہا تھا۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ کی افواج 11 ستمبر 2021 تک افغانستان سے انخلا مکمل کر لیں گی۔ تاکہ فوج کی 20 سال کی غیر معمولی موجودگی کا خاتمہ ہو۔ فوجی اتحاد نیٹو میں شامل ممالک نے بھی اس پر عمل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

افغانستان سے فوجیوں کی واپسی بڑی حد تک مکمل ہو چکی ہے اور امکان ہے کہ رواں برس مئی سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ اگست کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔

وائس آف امریکہ کے نمائندگان کارلا باب اور ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق منگل کو پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی نے افغانستان میں بگرام ایئربیس سے امریکی فوج کے حالیہ انخلا کا دفاع کیا جس پر مقامی افغان کمانڈر نے حیرت کا اظہار کیا تھا۔

جان کربی نے ‘آپریشنل سیکیورٹی’ کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ امریکی فوج نے اپنے افغان اتحادیوں کو مکمل انخلا کے مخصوص وقت نہیں بتایا تھا۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ واپسی ‘کسی طور پر خفیہ نہیں کی گئی۔’

پیر کو خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس‘ نے رپورٹ کیا تھا کہ افغان فوجی حکام نے کہا تھا کہ امریکی فورسز نے نئے افغان کمانڈرز کے علم میں لائے بغیر جمعہ کی رات کو اڈہ خالی کیا۔

رپورٹس کے مطابق امریکی فوج کے جانے کے فوری بعد بگرام اڈے کی بجلی چلی گئی تھی جس سے الجھن پیدا ہوئی تھی اور اس نے لٹیروں کو اڈے میں داخل ہونے اور عمارتوں کی تلاشی لینے کا موقع دیا تھا۔

جان کربی کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں بات نہیں کر سکتے کہ کس طرح افغان قیادت نے اپنے لوگوں کو آگاہ کیا۔ ان کے بقول امریکی جنرل اسکاٹ ملر، ان کے اسٹاف اور افغان فوجی اور سویلین قیادت کے درمیان بگرام اڈے کی واپسی سے متعلق رابطہ تھا۔

پینٹاگون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جان کربی کا کہنا تھا کہ وہ ان سوالات کو دیکھیں گے کہ کیوں بجلی منقطع کر دی گئی تھی۔

ان کے بقول امریکہ نے بگرام کا کنٹرول دینے سے قبل چھ دیگر مراکز کو باضابطہ طور پر افغان وزارتِ دفاع کے حوالے کر دیا تھا۔

‘ابتدائی مسائل’

دوسری جانب افغان قومی سلامتی کے سربراہ حمد اللہ محب نے منگل کو کہا تھا کہ امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی افواج کے انخلا سے ہونے والے ‘ابتدائی مسائل’ طالبان کی جانب سے تیزی سے حاصل کیے جانے والے علاقائی فوائد کے پیچھے ہیں۔ اور ان کی حکومت اسے دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

افغان قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب نے نامہ نگاروں سے گفتگو میں کہا کہ افغان فضائیہ پر اضافی دباؤ اور پیچھے ہٹ جانے کے نتیجے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ان ابتدائی مسائل میں سے کچھ تھے جنہیں کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ وسائل کی کمی بالخصوص افغان فضائیہ سے متعلق معاملات نے غیر ملکی افواج کے انخلا کے آغاز کے بعد دور دراز سیکیورٹی اڈوں کو ضرورت کے سامان کی فراہمی کو انتظامیہ کے لیے مشکل بنا دیا۔

حمد اللہ محب نے ان رپورٹس کی تردید کی کہ افغانستان کی حمایت یافتہ فورسز باغیوں کی صفوں میں شامل ہو رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے گولا بارود اور رسد ختم ہونے کی وجہ سے اپنی چوکیاں چھوڑ دی ہوں۔ لیکن کوئی بھی منحرف ہو کر طالبان میں شامل نہیں ہوا۔

بڑے پیمانے پر اضلاع اور علاقے طالبان کے قبضے میں جانے کے باوجود افغانستان کی قومی سلامتی کے مشیر نے یقین کا اظہار کیا کہ ان کی حکومت کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور میدان جنگ میں ہونے والے نقصانات عارضی نوعیت کے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ جنگ ہے جس میں دباؤ ہوتا ہے۔ بعض دفعہ حالات آپ کے حق میں ہوتے ہیں اور بعض اوقات ایسا نہیں ہوتا۔

’فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز‘ کے ’لانگ وار جرنل‘ کے مطابق غیر ملکی افواج کے انخلا کے آغاز کے بعد سے طالبان کی جانب سے افغانستان کے اضلاع کا کنٹرول حاصل کرنے کی تعداد دوگنا سے زیادہ ہے۔ طالبان گزشتہ دو ماہ میں 120 سے زائد اضلاع پر قبضہ کر چکے ہیں اور طالبان کے زیرِ کنٹرول اضلاع کی مکمل تعداد 73 سے بڑھ کر 195 ہو گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں