سوئٹزر لینڈ، ناروے اور ڈنمارک کا افغانستان میں اپنے سفاتخانے بند کرنے کا اعلان

کابل (ڈیلی اردو) افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتحال گھمبیر ہوگئی۔ سوئٹزر لینڈ، ڈنمارک اور ناروے نے کابل میں اپنے سفاتخانے بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ جرمنی اور فرانس نے سفارتی عملہ میں خاطر خواہ کمی کر دی۔

نیٹو کے اہم اجلاس میں سفارتی مشن کابل میں برقرار رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ پینٹاگون کے مطابق امریکا اپنے سفارتی عملہ اور شہریوں کے انخلاء کے لیے 3 ہزار فوج چوبیس گھنٹے کے اندر کابل روانہ کرے گا۔

پاکستان میں سابق افغان سفیر عمر زخیلوال کا کہنا ہے کہ اشرف غنی نے 7 سال افغانستان کو ذاتی جاگیر کی طرح چلایا، سرکاری وسائل خود کو عظیم لیڈر ثابت کرنے کی کوششوں میں لگا دیئے، افغانستان کو بچانا ہے تو اشرف غنی کو ہٹا کر مذاکراتی ٹیم کو اختیار دینے ہونگے۔ انہوں نے موجودہ چیف جسٹس کو نگران حکومت کے لیے موزوں امیدوار قرار دیا۔

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے مطابق افغان حکومت نے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ماسکو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سرگئی لاروف نے کہا کہ یہ اجلاس بین الافغان مذاکرات کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔

طالبان نے قندہار، ہرات، لوگر اور ہلمند کے چار اہم ترین صوبوں پر ایک ہی دن میں قبضہ کر لیا۔ ہرات سے ملیشیا کمانڈر اسماعیل خان، گورنر ہرات، پولیس چیف اور لوگر صوبے کے گورنر کو طالبان نے حراست میں لے لیا۔ چاروں صوبوں سے ہزاروں افغان فورسز نے بھی ہتھیار ڈال دیئے۔

ہرات ائیرپورٹ سے طالبان نے بھارتی لڑاکا طیارہ قبضے میں لے لیا۔ ہرات میں ہی بھارت کے تعمیر کردہ، سلمی ڈیم کی حفاظت پر مامور افغان فورسز نے بھی ہتھیار ڈال دیئے جبکہ گزشتہ روز قندوز سے بھارتی ہیلی کاپٹر بھی طالبان کے ہاتھ آیا تھا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق طالبان نے ملک کے دوسرے بڑے اور اہم تجارتی شہر قندھار پر بھی قبضہ حاصل کر لیا ہے اور اب صوبہ لوگر میں داخل ہو چکے ہیں۔

طالبان افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب پہنچ چکے ہیں، جبکہ ملک میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے باعث لاکھوں افراد نے کابل کی جانب نقل مکانی کی ہے اور وہ رات سڑکوں پر گزار رہے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق طالبان نے اب شمالی افغانستان کے بیشتر حصے پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے اور ملک کے ایک تہائی صوبائی داراحکومتوں کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔

دوسری جانب طالبان کی جانب سے صحافیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنا صحافتی کام جاری رکھ سکتے ہیں اور اُنھیں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔

مگر جاری کردہ ہدایات کے مطابق صحافیوں کے لیے لازم ہوگا کہ اپنی رپورٹنگ کے دوران ’افغانستان کے قومی مفاد کا خیال رکھیں۔‘

طالبان کے کلچرل کمیشن برائے ملٹی میڈیا کے سربراہ اسد افغان کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو پیغام میں صحافیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ’چند پیسوں کی خاطر اپنی اہم ذمہ داری کو ملک اور قوم کے خلاف استعمال نہ کریں اور ذمہ داری کے ساتھ افغان عوام کی مشکلات پر کام کریں اور ان کی آواز متعلقہ اداروں تک پہنچائے۔‘

واضح رہے کہ بیشتر شہروں پر طالبان کے قبضوں کے بعد افغانستان کے صحافیوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ اُنھیں آزادی سے کام نہیں کرنے دیا جائے گا اور اسی وجہ سے کئی صحافی ملک چھوڑنے کی تگ و دو میں ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں