لاہور ہائیکورٹ کا کالعدم ٹی ایل پی سربراہ سعد رضوی کو رہا کرنے کا حکم

لاہور (ڈیلی اردو) لاہور ہائیکورٹ نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد حسین رضوی کی دوسری بار نظر بندی کالعدم قرار دے کر رہا کر دیا گیا ہے۔
 
تفصیلات کے مطابق جسٹس طارق سلیم شیخ نے سعد رضوی کے چچا امیر حسین کی درخواست منظور کر لی۔ درخواست گزار کی طرف سے برہان معظم ملک ایڈووکیٹ جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد علی باجوہ پیش ہوئے۔

حکومتی وکیل نے دلائل دیئے کہ حکومت نظر بندی کی منظوری ماضی سے بھی دے سکتی ہے، اس حوالے سے عدالتی فیصلے موجود ہیں اور قوانین کے تحت غیر معمولی صورت حال میں کابینہ کی منظوری کے بغیر احکامات جاری کیے جا سکتے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت نظر بندی ایم پی او کے تحت نظر بندی سے کیسے مختلف ہے؟ دوبارہ نظر بندی کے لیے کوئی نئی وجوہات موجود ہیں؟

جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو مطمئن کریں کہ کالعدم ٹی ایل پی سعد رضوی کی انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت نظری بندی کی کوئی اضافی وجوہات موجود ہیں۔ اس پر سرکاری وکیل نے دلائل دیئے کہ وجوہات میں صوبائی اور ضلعی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سفارشات اہم ہیں، انٹیلی جنس ایجنسیز کے مطابق ٹی ایل پی شوریٰ کے اراکین سعد رضوی کی نظر بندی ختم کرانے کے لیے بیتاب ہیں کیونکہ ان کا دوبارہ احتجاج کا ارادہ ہے۔

سرکاری وکیل کے مطابق مجلس شوریٰ رہائی کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پر عدالت نے قرار دیا کہ سعد رضوی کی پہلی نظر بندی اور دوسری نظر بندی کی وجوہات ایک جیسی ہیں، نظر بندی کے لیے نظر بند فرد کو اس کی وجوہات پیش کرنا اہم جزو ہے۔ سرکاری وکیل نے دلائل دیئے کہ میں دستاویزات سے ثابت کروں گا کہ نظر بندی کی وجوہات علیحدہ ہیں، سعد رضوی کی نظر بندی کی سمری کابینہ کو ارسال کی گئی تھی۔

لاہور ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ پھر نظربندی کی سمری پر کسی میٹنگ کا دستاویزات میں کوئی ذکر کیوں نہیں؟ آپ نے کتنے وزرا کو خطوط بھیجے؟ سرکاری وکیل نے بتایا کہ 36 وزرا کو نظر بندی کی منظوری کے لیے خطوط بھیجے گئے، جن میں سے 19 نے رضا مندی ظاہر کی۔ سرکاری وکیل نے وزرا کو بھجوائے گئے خطوط سربمہر لفافے میں عدالت میں پیش کیے اور عدالت سے استدعا کی کہ نظر بندی کو برقرار رکھنے کا حکم دیتے ہوئے درخواست خارج کی جائے۔

اس سے قبل سعد رضوی کے وکیل برہان معظم ملک نے عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی کمشنر لاہور نے انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت نظر بندی کا حکم جاری کیا، اس پر غور کیا جانا چاہیے کہ کیا یہ اختیار انہیں حاصل بھی تھا کہ نہیں؟ سرکاری وکلا نے اعتراض اٹھایا کہ چونکہ نظر بندی کا حکم ڈپٹی کمشنر نے جاری کیا تھا، اس لیے اس کے خلاف سماعت بھی صرف وہی کرسکتے ہیں۔ سرکاری وکلا کے مطابق نظربندی کے لیے تفویض شدہ اختیار استعمال کیا گیا۔

عدالت نے قرار دیا کہ نظر بندی کا نوٹیفکیشن اور اس کے اجرا کے لیے اپنایا گیا طریقہ کار بادی نظر میں حکومتی بدنیتی ہے۔ اس پر سرکاری وکیل نے موقف اختیار کیا کہ وفاقی کابینہ کے دستخطوں والی دستاویز کانفیڈینشل معاملہ ہے، جسے اوپن کورٹ میں نہیں دکھا سکتے، عدالت اجازت دے کہ ان کے چیمبر میں دکھا سکتے ہیں۔ سعد رضوی کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے موکل کی نظر بندی کے احکامات غیر قانونی ہیں لہٰذا انہیں کالعدم قرار دے کر رہائی کا حکم دیا جائے۔

عدالت نے فریقین کے وکلا دلائل مکمل ہونے کے بعد حافظ سعد رضوی کی نظر بندی کا حکم کالعدم قرار دے کر رہائی کا حکم سنا دیا۔
 
واضح رہے کہ صوبائی نظر ثانی بورڈ نے 2 جولائی کو نظربندی میں توسیع کے لئے حکومتی درخواست مسترد کر دی تھی۔ صوبائی نظر ثانی بور ایم پی او کے تحت نظر بندی میں توسیع کی درخواست خارج کی تھی، توسیع نہ ہونے پر سعد رضوی کو انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت 10 جولائی کو دوبارہ نظر بند کر دیا گیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں