سوڈان میں فوجی بغاوت: وزیر اعظم سمیت کئی وزرا گرفتار

خرطوم (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) افریقی ملک سوڈان میں فوجی بغاوت اور وزیرِ اعظم سمیت کئی اہم سیاسی شخصیات کو حراست میں لیے جانے کی اطلاعات ہیں جب کہ دارالحکومت خرطوم سمیت مختلف مقامات پر شہریوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔

سوڈان کے مقامی نشریاتی اداروں کے مطابق ملک میں بظاہر فوجی بغاوت کے بعد ملک کے وزیرِ اعظم عبداللہ حمدوک کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق سوڈان کے جنرل عبدالفتح نے ملک میں ایمرجنسی لگا کر گزشتہ دو برس سے قائم سول۔ملٹری کونسل بھی تحلیل کر دی ہے۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ نے وزیرِ اعظم کے خاندانی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ فوجی اہل کاروں نے پیر کی صبح وزیرِ اعظم کے گھر پر دھاوا بولا جس کے بعد اُنہیں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

سوڈان کی وزارتِ اطلاعات کی جانب سے جاری ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم عبداللہ کو فوجی بغاوت کی حمایت نہ کرنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔

مقامی ٹی وی کے مطابق مبینہ فوجی بغاوت کے دوران عبداللہ کابینہ کے چار وزرا اور ایک سویلین کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔

امریکہ اور افریقی یونین کا ردِعمل

ادھر خرطوم میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں فوجی بغاوت کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ “سویلین حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی اطلاعات پر تشویش ہے لہذٰا جمہوری عمل کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے ہر اقدام کی امریک مذمت کرتا ہے۔”

افریقی یونین کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں بھی حراست میں لیے گئے تمام افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کئی پارٹی رہنما اور حکومتی عہدے داروں کو بھی حراست میں لینے کی اطلاعات ہیں جب کہ دارالحکومت خرطوم میں انٹر نیٹ سروس بھی متاثر ہوئی ہے۔

مقامی صحافیوں اور سماجی کارکنوں کے مطابق سوڈان کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ سوڈان طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے سابق صدر عمر البشیر کا 2019 میں تختہ اُلٹنے کے بعد سے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ اس دوران فوج نے ماہر معیشت اور سفارت کار عبداللہ ہمدوک کو عبوری وزیرِ اعظم نامزد کرنے کی حمایت کی تھی۔

عمر البشیر کو سوڈان میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا جس کی وجہ سے اُن کے حامی فوجی افسران اور سول حکومت کے تعلقات میں کافی عرصے سے سرد مہری پائی جاتی تھی۔

سوڈان میں آئندہ برس کے اختتام پر نئے انتخابات طے ہیں، تاہم آئین کے مطابق عبداللہ حمدوک کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہے۔

البتہ فوج کے اندر موجود عمر البشیر کے حامی دھڑے کی جانب سے وزیرِ اعظم عبداللہ حمدوک کو مسلسل مزاحمت کا سامنا تھا۔

گزشتہ ماہ 21 ستمبر کو بھی سوڈان میں اس وقت فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی تھی جب درجنوں فوجی اہل کاروں نے ایک اہم پل پر قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم یہ کوشش ناکام بنا کر کئی فوجیوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

گزشتہ ہفتے ہزاروں مظاہرین نے ملک میں ممکنہ فوجی بغاوت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔ مظاہرین نے حکومت کی حمایت میں نعرے بازی بھی کی تھی۔

سوڈان میں ٹریڈ یونینز کی جانب سے پیر کو عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ گھروں سے باہر نکلیں اور فوجی بغاوت کو ناکام بنائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں