لاہور: مسجد سے مسیحی شخص کے انتقال کے اعلان پر تنازع، توہین مذہب کے الزام میں 4 افراد گرفتار

لاہور (ڈیلی اردو/وی او اے) صوبہ پنجاب کے صوبائی حکومت لاہور میں چار افراد کو توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ان افراد پر توہینِ مذہب اور ایک مسیحی شخص کی مدد کرنے کا الزام ہے۔

توہینِ مذہب کا مقدمہ 18 نومبر کو لاہور کے تھانہ برکی میں درج کیا گیا ہے جس میں 295 اور 298 کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ یہ مقدمہ مسجد کمیٹی کے رکن محمد منشا کی درخواست پر درج ہوا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق مسجد حشمت اللہ میں ایک مقامی خاتون نے مسیحی شخص کے انتقال کا اعلان کرانے کے لیے مسجد کے امام سے رابطہ کیا جس پر امام مسجد نے خاتون کو جواب دیا کہ مساجد میں مسیحیوں کے اعلانات نہیں ہوتے۔

بعد ازاں خاتون کے شوہر اور تین بیٹے نے مسجد پہنچ کر امام سے ناشائستہ گفتگو کی اور مبینہ طور پر اسلام اور شائرِ اسلام کے بارے میں نامناسب الفاظ کہے۔

وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی مولانا طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہے کہ آیا اس میں توہینِ مذہب کا عنصر شامل ہے یا نہیں۔

طاہر اشرفی کے مطابق یہ ایف آئی آر مسلمانوں میں آپس میں جھگڑے کی وجہ سے درج کی گئی ہے۔ اس میں کوئی مسیحی یا کوئی بھی غیر مسلم شامل نہیں۔

ان کے بقول ایف آئی آر میں نامزد ملزم اور دوسرا فریق دونوں مسلمان ہیں اور اس معاملے کی تحقیقات جاری ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مولانا طاہر اشرفی نے کہا کہ امید ہے کہ یہ معاملہ جلد حل کیا جائے گا۔ تاہم یہ دیکھا جا رہا ہے کہ توہینِ مذہب کی بات ایف آئی آر میں کیوں کی گئی ہے۔

معاونِ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی بتاتے ہیں کہ ایف آئی آر میں وجہ تنازع غیر مسلم ہیں لیکن فریقین غیر مسلم نہیں۔

ان کے بقول جب سے ایف آئی آر درج ہوئی ہے لاہور پولیس اس پر کام کر رہی ہے۔ اگر اس میں کوئی پولیس اہلکار ملوث ہوا تو اس کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل غلط ایف آئی آر درج کرنے پر رحیم یار خان میں مندر توڑنے پر ایکشن لیا گیا تھا۔

وائس آف امریکہ نے اس سلسلے میں لاہور کے ایس پی کینٹ عیسیٰ سکھیرا سے رابطہ کیا تو وہ دستیاب نہیں تھے۔ البتہ متعلقہ پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتے۔

دوسری جانب سول سوسائٹی لاہور کے صدر اور ماہر قانون عبداللہ ملک کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کی مدد انسانیت کے ناطے کی جاتی ہے۔ اس میں کسی بھی فریق کا اسی مذہب سے ہونا ضروری نہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عبداللہ ملک نے کہا کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے فیصلے پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ان کے بقول سابق مقتول گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے کیس میں سپریم کورٹ کے اس وقت کے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے فیصلے میں بہت سے پہلوؤں پر روشنی ڈالی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ریاست اور ہر شہری کو ذمہ داری کا ثبوت دینا ہے۔ ان کے مطابق فیصلے میں کہا گیا تھا کہ مذہب کے معاملے میں قوانین کو غلط استعمال کرنے کے لیے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

ادھر ایف آئی آر سے متعلق ابتدائی تحقیقات پر مولانا طاہر اشرفی نے کہا کہ “پولیس کے مطابق مسجد جانے والی خاتون عیسائی نہیں۔ اس کا نام حلیمہ بی بی ہے۔ امام مسجد اسلم نے عورت کو منع کیا جس پر خاتون نے گھر جاکر کہا کہ ان سے بدتمیزی کی گئی ہے جس پر خاتون کا شوہر اور بیٹے طیش میں آگئے۔”

انہوں نے ابتدائی تحقیقات سے متعلق بتایا کہ خاتون کے شوہر اور بیٹوں نے مسجد جا کر امام مسجد کے ساتھ سخت جملوں کا تبادلہ کیا۔ انہوں نے مبینہ طور پر مسجد کے دروازوں اور منبر کو نقصان پہنچایا۔ جس پر معاملہ متحدہ علما بورڈ کو بھیج دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں 298 اے، 295 بی یا 295 سی کی دفعات شامل نہیں کی گئی۔ ایف آئی آر مسجد کو نقصان پہنچانے کی صورت میں درج کی گئی ہے جس میں دفعہ 295 لگائی گئی ہے۔

علاوہ ازیں صدر سول سوسائٹی عبداللہ ملک نے کہا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے لوگوں میں شعور اجاگر کرنا، تعلیمی اداروں میں انسانیت اور اخلاقیات سکھانا ضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں