سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کی تدفین: ایسے تو کوئی جانور کو بھی نہیں مارتا

کولمبو (ڈیلی اردو/روئٹرز/بی بی سی) پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں قتل ہونے والے سری لنکن فیکٹری مینیجر پریانتھا کمارا کی میت سری لنکا پہنچنے کے بعد ان کی رہائش گاہ لائی گئی جہاں ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔

بدھ کے روز ان کی تدفین کر دی گئی۔

ان کی میت چھ دسمبر کو سری لنکا پہنچا دی گئی تھی جسے کولمبو کے قریب گمپاہ میں رکھا گیا تھا۔ پریانتھا کے بھائی کا کہنا تھا کہ ’جو ہوا ہم اس کی کیا توجیہ دیں، ہم نہیں جانتے۔ یہ ایک سانحہ ہے۔‘

مقامی قبرستان میں تدفین سے قبل لوگوں نے بودھ مذہب کے تحت ہونے والی آخری رسومات میں شرکت کی۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے پی‘ کے مطابق سری لنکن شہری پریانتھا کمارا، جنہیں گزشتہ ہفتے سیالکوٹ میں توہین مذہب کے الزام میں ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کے بعد آگ لگا دی تھی، بدھ کے روز ان کے آبائی گاؤں میں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا.

ان کے بھائی کا خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’بحیثیت انسان ہم کسی جانور کو مارتے ہوئے بھی دو بار سوچتے ہیں، حتی کہ جانور کو مارتے ہوئے ہم اس طرح قتل نہیں کرتے۔ یہ ایک سفاک قتل ہے، مار مار کر ہلاک کرنا، پھر لاش کو جلا دینا اور کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جب ایسا کیا گیا وہ زندہ تھا۔‘

قتل ہونے والے فیکٹری مینجر کے لواحقین میں ان کی ہلیہ اور دو بیٹے شامل ہیں۔

واضح رہے کہ پریانتھا کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں گذشتہ جمعے کو ایک مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں قتل کر دیا تھا۔

پاکستان کے حکام نے کہا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ الزامات جھوٹ پر مبنی تھے اور اس مقدمے میں اب تک سو سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

مقتول پریانتھا سری لنکا کے سب سے بڑے شہر کولمبو سے قریب 33 کلومیٹر دور علاقے گنیمولا کے رہائشی تھے اور ان کے لواحقین میں ان کی والدہ، بھائی، اہلیہ اور دو بیٹے شامل ہیں۔ اس خاندان کا تعلق بدھ مت سے ہے اور ویڈیوز میں ان رسومات کو ادا کرنے کے لیے راہب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جب یہ لاش ان کی رہائش گاہ پر پہنچتی ہے تو ان کی والدہ رونے لگتی ہیں اور ان کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں۔ ان کی والدہ اس تابوت کو چھوتی ہیں اور اس دوران پورا خاندان آبدیدہ ہو جاتا ہے۔

ان کی اہلیہ اور کم عمر بیٹوں سمیت وہاں موجود تمام افراد اپنے ہاتھ جوڑ کر دعا کرتے ہیں۔

ان رسومات کے دوران ان کے گھر مقامی سیاسی و سماجی رہنما بھی آئے اور اس قتل کی مذمت کی۔

اس موقع پر پریانتھا کے بھائی وسنتھا کمارا کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے خاندان کو انصاف ملے گا۔ انھوں نے سری لنکن اور پاکستانی حکام سے کہا ہے ’اگر وہ چاہتے ہیں کہ ہم صورتحال پر اطمینان ظاہر کریں تو پہلے ہمیں بریف کیا جائے کہ اب تک کیا ہوا ہے اور کیا ہو رہا ہے۔‘

ان کے ایک دوسرے بھائی کمالا سری سنتھا کمارا، جو پاکستان کے شہر فیصل آباد میں ملازمت کرتے ہیں، کا کہنا تھا کہ ان کا پاکستان واپس جانا غیر واضح ہے۔ آج ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ آیا میں واپس جا کر کام کر سکوں گا کیونکہ میرا خاندان بہت ڈرا ہوا ہے۔‘

رواں ہفتے کولمبو میں پاکستانی سفارتخانے کے باہر سری لنکن سول سوسائٹی کا احتجاجی مظاہرہ بھی ہوا جہاں لوگوں نے اپنے ہاتھوں بینر اٹھائے ہوئے تھے۔

ان میں سے کچھ بینروں پر لکھا تھا ’پاکستان مذہبی انتہا پسندی بند کرے‘ جبکہ ایک پر درج تھا ’تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی عائد کی جائے۔‘

کچھ بینروں پر پریانتھا کے خاندان اور بیٹوں کے لیے معاوضے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور لکھا تھا ’پریانتھا کے بچوں کو 10 لاکھ امریکی ڈالر کا معاوضہ دیا جائے۔‘

خیال رہے کہ گذشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا تھا کہ مذہب کی بنیاد پر ظلم کرنے والوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ ’پوری قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ سیالکوٹ جیسے واقعات نہیں دہرائے جائیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سیالکوٹ میں بزنس کمیونٹی نے پریانتھا کے خاندان کے لیے ایک لاکھ امریکی ڈالر جمع کیے ہیں جبکہ ان کے خاندان کو باقاعدگی سے ان کی تنخواہ دی جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں