پریانتھا کمارا: سیالکوٹ واقعے کے ملزمان کو پھانسی دینی چاہیے، علامہ طاہر اشرفی

لاہور (ڈیلی اردو) وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی علامہ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ سیالکوٹ واقعے کے ملزمان کو پھانسی دینی چاہیے۔

معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی علامہ طاہر اشرفی نے گورنر ہاؤس میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں توہین رسالت، توہین مذہب کا کوئی کیس درج نہیں ہوا، متحدہ علما بورڈ نے توہین رسالت، مذہب کے 25 کیسز حل کیے ہیں۔

طاہر اشرفی نے کہا کہ لوگوں کو اسلام کے بارے میں بتانے کے لیے رحمت اللعالمین اتھارٹی قائم کی، معاشرے کی تباہی میں ہم سب نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ سیالکوٹ واقعے کے ملزمان کو پھانسی دینی چاہیے، ریاست نے سیالکوٹ کیس کے معاملے پر اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج پورے ملک میں جمعہ یوم مذمت کے طور پر منایا گیا، سانحہ سیالکوٹ پر پورے ملک میں اتفاق رائے پیدا ہوا ہے، کسی کے مذہب کے بارے میں فیصلہ کرنے والا کوئی کون ہوتا ہے، جو شخص الزام لگاتا ہے الزام غلط ثابت ہو تو اس آدمی پر وہی حد لاگو ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ سری لنکن فیکٹری مینیجر پریانتھا کمارا کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں گذشتہ جمعے کو ایک مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں قتل کر دیا تھا۔

https://twitter.com/ShabbirTuri/status/1466689781929111552?t=isY1KgcWp9UJAh6K3vIspg&s=19

پاکستان کے حکام نے کہا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ الزامات جھوٹ پر مبنی تھے اور اس مقدمے میں اب تک سو سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

مقتول پریانتھا سری لنکا کے سب سے بڑے شہر کولمبو سے قریب 33 کلومیٹر دور علاقے گنیمولا کے رہائشی تھے اور ان کے لواحقین میں ان کی والدہ، بھائی، اہلیہ اور دو بیٹے شامل ہیں۔ اس خاندان کا تعلق بدھ مت سے ہے اور ویڈیوز میں ان رسومات کو ادا کرنے کے لیے راہب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جب یہ لاش ان کی رہائش گاہ پر پہنچتی ہے تو ان کی والدہ رونے لگتی ہیں اور ان کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں۔ ان کی والدہ اس تابوت کو چھوتی ہیں اور اس دوران پورا خاندان آبدیدہ ہو جاتا ہے۔

ان کی اہلیہ اور کم عمر بیٹوں سمیت وہاں موجود تمام افراد اپنے ہاتھ جوڑ کر دعا کرتے ہیں۔

ان رسومات کے دوران ان کے گھر مقامی سیاسی و سماجی رہنما بھی آئے اور اس قتل کی مذمت کی۔

اس موقع پر پریانتھا کے بھائی وسنتھا کمارا کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے خاندان کو انصاف ملے گا۔ انھوں نے سری لنکن اور پاکستانی حکام سے کہا ہے ’اگر وہ چاہتے ہیں کہ ہم صورتحال پر اطمینان ظاہر کریں تو پہلے ہمیں بریف کیا جائے کہ اب تک کیا ہوا ہے اور کیا ہو رہا ہے۔‘

ان کے ایک دوسرے بھائی کمالا سری سنتھا کمارا، جو پاکستان کے شہر فیصل آباد میں ملازمت کرتے ہیں، کا کہنا تھا کہ ان کا پاکستان واپس جانا غیر واضح ہے۔ آج ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ آیا میں واپس جا کر کام کر سکوں گا کیونکہ میرا خاندان بہت ڈرا ہوا ہے۔‘

رواں ہفتے کولمبو میں پاکستانی سفارتخانے کے باہر سری لنکن سول سوسائٹی کا احتجاجی مظاہرہ بھی ہوا جہاں لوگوں نے اپنے ہاتھوں بینر اٹھائے ہوئے تھے۔

https://twitter.com/ShabbirTuri/status/1467770010319814657?t=ywhY8TbGgk19CScrElVgAA&s=19

ان میں سے کچھ بینروں پر لکھا تھا ’پاکستان مذہبی انتہا پسندی بند کرے‘ جبکہ ایک پر درج تھا ’تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی عائد کی جائے۔‘

https://twitter.com/ShabbirTuri/status/1467834275441557508?t=YfGkGkWqYp1XATgcmK11bQ&s=19

کچھ بینروں پر پریانتھا کے خاندان اور بیٹوں کے لیے معاوضے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور لکھا تھا ’پریانتھا کے بچوں کو 10 لاکھ امریکی ڈالر کا معاوضہ دیا جائے۔‘

https://twitter.com/ShabbirTuri/status/1468127366698336256?t=JX-zMPLom3W8n0y16hUYMQ&s=19

خیال رہے کہ گذشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا تھا کہ مذہب کی بنیاد پر ظلم کرنے والوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ ’پوری قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ سیالکوٹ جیسے واقعات نہیں دہرائے جائیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سیالکوٹ میں بزنس کمیونٹی نے پریانتھا کے خاندان کے لیے ایک لاکھ امریکی ڈالر جمع کیے ہیں جبکہ ان کے خاندان کو باقاعدگی سے ان کی تنخواہ دی جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں