مدثر نارو کیس: کیوں نہ آرٹیکل 6 لگا کر تمام متعلقہ چیف ایگزیکٹوز کا ٹرائل شروع کر دیں

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتا صحافی مدثر نارو کے کیس کی سماعت کے دوران پاکستان کے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ کچھ بیماریوں کا علاج فیصلوں سے نہیں ہوتا بلکہ عوام کے پاس ہوتا ہے۔ اگر 10 لاکھ لوگ سڑکوں پر نکلیں تو لاپتا ہونے کا سلسلہ رک جائے گا۔ ایران میں یہ سلسلہ ایسے ہی رکا ہے۔

اٹارنی جنرل نے یہ بیان اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافی مدثر نارو کی گمشدگی کیس میں سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی احکامات کے مطابق مدثر نارو کے اہلِ خانہ کی ملاقات وزیرِ اعظم سے کرا دی ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو مزید بتایا کہ گمشدہ صحافی کے اہلِ خانہ کو سن کر وزیرِ اعظم سمیت اس موقع پر موجود تمام افراد شرمندہ ہوئے۔ مدثر نارو نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا کہ انہیں لاپتا کر دیا جائے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ذمہ دار لوگ اپنا کام کریں تو کسی کو نہیں اٹھایا جا سکتا، لوگوں کے لاپتا ہو جانے کا ذمہ دار چیف ایگزیکٹو ہی ہوتا ہے۔ یہاں سابق چیف ایگزیکٹو لوگوں کے اٹھائے جانے کا فخر سے کتابیں لکھ کریڈٹ لیتے ہیں۔ ریٹائر ہونے کے بعد سب صوفی بن جاتے ہیں۔

ہائی کورٹ کی طرف سے پاکستان کے شہریوں کے لاپتا ہونے پر چیف ایگزیگٹو کے خلاف کارروائی کے سوال پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بقول ان کے جس چیف ایگزیگٹو کو آرٹیکل چھ پر سزا ہوئی تھی، اس سزا پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ آرٹیکل چھ ان کی اپنی کتاب میں اعتراف کے طور پر موجود ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا “چیف ایگزیکٹو پر کیا فیصلہ دیں گے؟ وہ تو خود پھانسی لگتے رہے۔ دو چیف ایگزیکٹو قتل کر دیے گئے۔ کچھ باہر چلے گئے۔ اب چیف ایگزیکٹوز کو اور کیا کہیں گے۔”

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے مؤقف اختیار کیا کہ لوگوں کا لاپتا ہو جانا پاکستان پر دھبہ ہے یہ بدقسمتی ہے۔ موجودہ حکومت کو یہ کیسز ورثے میں ملے ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ریاست کہیں موجود ہوتی تو متاثرہ فیملی عدالت کیوں آتی؟ ہمیں کیوں کہنے کی ضروت پڑتی کہ آپ وزیرِ اعظم کے نوٹس میں لائیں۔ یہاں تمام ادارے آ کر کہتے ہیں ہمیں کچھ پتا نہیں بندہ کہاں ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیرِ اعظم عمران خان نے مدثر نارو کے والدین اور چار سالہ بیٹے سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں وزیرِ اعظم نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ریاست مدثر نارو کی بازیابی کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔ انہوں نے سول و ملٹری حکام کو اس بارے میں اقدام کرنے کی ہدایت بھی کی تھی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ نو سال تک چیف ایگزیکٹو رہنے والا کتاب لکھ کر لاپتا افراد کا کریڈٹ لیتا ہے۔ لاپتا افراد کمیشن کا جو اصل کام تھا اس نے نہیں کیا، مدثر نارو کی فیملی تو عدالت آ گئی ہزاروں تو یہاں بھی نہیں آ سکتے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارا جغرافیہ ایسا ہے نیشنل سیکیورٹی کو بھی دیکھنا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب نیشنل سیکیورٹی شہریوں کی حفاظت میں ہے، ایسا رہا تو کیا کل کوئی ایس ایچ او بھی کسی کو اٹھا لے گا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ لاپتا افراد پر سارے چیف ایگزیکٹوز پر آرٹیکل چھ نہ لگا دیں؟ آرٹیکل چھ لگا کر تمام متعلقہ چیف ایگزیکٹوز کا ٹرائل شروع کرا دیتے ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے سابق صدر پرویز مشرف کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جس کو آرٹیکل چھ پر سزا ہوئی تھی ہم اس سزا پر عمل درآمد نہیں کرا سکے اور آرٹیکل چھ ان کی اپنی کتاب میں اعتراف جرم کی صورتِ میں موجود ہے۔

‘بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر وزیرِ اعظم ذمے دار ہیں’

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک ہال آف شیم بنا دیتے ہیں جس میں سب چیف ایگزیکٹو کی تصاویر ہوں، خالد جاوید نے کہا کہ صرف چیف ایگزیکٹو کیوں باقی ذمہ داروں کی بھی ہوں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حتمی ذمہ داری چیف ایگزیکٹو کی ہی ہوتی ہے۔

انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک فیصلہ تو لکھنے دیں کسی کو تو ذمہ دار ٹھہرائیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کچھ بیماریوں کا علاج فیصلوں سے نہیں، عوام کے پاس ہوتا ہے۔ ان کے بقول دس لاکھ لوگ سڑکوں پر نکلیں تو لاپتا ہونے کا سلسلہ رک جائےگا، ایران میں یہ سلسلہ ایسے ہی رکا ہے۔

سماعت کے دوران لاپتا افراد کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے کہا کہ ملک میں ہونے والی بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر وزیرِ اعظم اور کابینہ ذمہ دار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا پر دباؤ ہے جو لاپتا افراد کے اہل خانہ کی مشکلات نہیں دکھا سکتا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب ریاست خود جرم میں شامل ہو تو اس سے زیادہ تکلیف دہ بات ہو ہی نہیں سکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مدثر نارو کے بچے کو عدالت آنے سے پہلے انصاف ملنا چاہیے تھا، ہمیں توقع تھی بچے سے ملاقات کے بعد وفاقی کابینہ کچھ کرے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس شہر سے لوکل انتظامیہ کی مرضی کے بغیر کسی کو اٹھایا جا سکتا ہے؟ ایک بچے کو اٹھایا جاتا ہے واپس آ کر وہ کہتا ہے شمالی علاقوں کی سیر پر تھا، ہمیں نہیں پتا میڈیا آزاد ہے یا نہیں۔ آزاد میڈیا ہوتا تو لاپتا افراد کے خاندان کی تصویریں روز اخبارات میں ہوتیں۔ عدالت تو آئین کے مطابق فیصلہ ہی دے سکتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ آئین کے مطابق معاونت کریں ہم فیصلہ دیتے ہیں۔ بتائیں آرٹیکل چھ کے تحت فیصلہ دے دیتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے کچھ وقت دیں. میں نے ایسا کیس زندگی میں نہیں لڑا۔ میں اٹارنی جنرل ہوں ضرورت معاونت کروں گا۔ اپنے خیالات عدالت کو بتاؤں گا ریٹائرمنٹ کے بعد کتاب میں نہیں۔

اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم آرٹیکل چھ پہلے ان پر تو لگا ہی سکتے جنہوں نے اعتراف کر رکھا ہے۔ کتاب میں اعتراف کرنے والے سے شروع کریں تاکہ آغاز تو ہو یا تو چیف ایگزیکٹوز ذمہ داری لیں، یا پھر ان کو ذمہ دار ٹھہرائیں جو ان کے تابع ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت ایسا فیصلہ لکھنا چاہتی ہے جس سے جمہوریت مضبوط ہو تو معاونت کے لیے تیار ہوں۔ عدالت نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد کوئی بچہ عدالت آیا تو اسی فیصلے کے مطابق کارروائی ہو گی۔ لاپتا افراد کمیشن کی اپنی موجودگی کی آرٹیکل 14 کے مطابق کیا حیثیت ہے؟ لوگوں کا لاپتا ہو جانا اور ذمے دار کا پتا ہی نہ چلنا بدترین کرپشن ہے۔ اگر کوئی کرپشن کے خلاف ہے تو پہلے اس سلسلے کو بند کرائے۔

عدالت نے کارروائی مؤخر کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے چار ہفتے کا وقت دے دیا اور کہا کہ آپ 18 جنوری کو بتائیں کہ لاپتا افراد پر آئین کے مطابق کیا فیصلہ دیں۔

واضح رہے کہ صحافی مدثر نارو سال 2018 میں اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ سیر و تفریح کے لیے شمالی علاقے گئے تھے, جہاں وہ پرسرار طور پر لاپتا ہو گئے تھے۔ بعد میں پولیس نے ان کی اہلیہ کی درخواست پر ایف آئی آر درج کی اور مدثر نارو کو تلاش کرنا شروع کیا لیکن اس کے بعد سے اب تک مدثر نارو کے حوالے سے کچھ معلوم نہ ہو سکا۔

گزشتہ سال مدثر نارو کی اہلیہ صدف نارو حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئی تھیں جس کے بعد ان کا چار سالہ بیٹا سچل نارو اپنی دادی کی کفالت میں ہے۔

عدالت نے سچل کی کفالت کے لیے ریاست کو اخراجات ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کے مطابق اس بارے میں فائل پر کام جاری ہے اور جلد سچل کے اخراجات کے لیے رقم ان کے اہل خانہ کو دے دی جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں