جنوبی افریقا: نوبل انعام یافتہ آرچ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو انتقال کر گئے

کیپ ٹاؤن (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) جنوبی افریقہ میں نسل پرستی اور نسل کشی (آپارتھائڈ) کے نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والے نوبیل انعام یافتہ آرچ بشپ ڈیزمنڈ ٹوٹو 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

اُنہیں نسل پرستی کے تاریک دور میں جمہوری اقدار اور مساوات کا علم بردار سمجھا جاتا تھا۔

آپارتھائڈ نظام کے خلاف عدم تشدد پر مبنی جدوجہد پر اُنہیں 1984 میں نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا۔

جنوبی افریقہ میں 1948 سے 1990 کے اوائل تک آپارتھائڈ نظام رائج رہا تھا جس کے تحت ملک کی اقلیتی سفید فام آبادی کو سیاست اور معاشیات سمیت زندگی کے ہر شعبے میں سیاہ فام اکثریت کے مقابلے میں برتری حاصل تھی۔

جنوبی افریقن صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں ڈیزمنڈ ٹوٹو کے انتقال کی تصدیق کی گئی ہے۔

جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے ایک بیان میں ڈیزمنڈ ٹوٹو کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی افریقہ کی تاریخ میں ہم نے جن خاص شخصیات کو الوداع کیا ان میں ڈیزمنڈ ٹوٹو ایک اور افسوس ناک اضافہ ہے۔

ڈیزمنڈ ٹوٹو کون تھے؟

نسل پرستی کے حوالے سے دو ٹوک مؤقف رکھنے والے ٹوٹو کو جنوبی افریقہ میں سفید اور سیاہ فام طبقات کے ضمیر کی آواز سمجھا جاتا تھا جو منقسم قوم میں مفاہمت کے فروغ کے داعی تھی۔

اُنہوں نے ملک میں سفید فام اقلیت کی جانب سے طویل عرصے تک ملک کی دیگر آبادی کے ساتھ روا رکھے جانے والے مبینہ ناروا سلوک کے خاتمے کے باوجود بھی بہتر جنوبی افریقہ کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔

اُنہیں نسل پرستی کے خلاف جدوجہد میں جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کا ہم عصر سمجھا جاتا تھا۔

اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے تھے کہ وہ اس قوم کو ‘قوس قزح’ کی طرح دیکھنے کا خواب پورا نہیں کر سکے۔

جنوبی افریقہ کے علاوہ عالمی سطح پر بھی وہ مختلف تنازعات اور دنیا کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے آواز بلند کرنے کے باعث شہرت رکھتے تھے۔

وہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں پر قبضے، ہم جنس پرستوں کے حقوق، موسمیاتی تبدیلیوں سمیت دیگر اُمور پر بھی کھل کر اظہارِ خیال کرتے تھے۔

1980 کی دہائی میں جنوبی افریقہ میں نسل پرستی پر مبنی رائج نظام کے خلاف اُنہوں نے ایسے وقت میں دنیا بھر کے دورے کیے جب نیلسن منڈیلا سمیت دیگر سیاسی رہنما جیل میں تھے۔

سن 1986 میں اُنہوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ “ہمارا ملک جل رہا ہے اور اس سے خون رس رہا ہے۔ لہذٰا میں عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس حکومت پر پابندی لگائی جائے۔”

وہ 1986 میں کیپ ٹاؤن کے آرچ بشپ بنے جس کے ساتھ ہی وہ جنوبی افریقہ کے چوتھے بڑے اینگلیکن چرچ کے سربراہ بنے وہ 1996 تک اس منصب پر فائز رہے۔

اپنی ریٹائرمنٹ پر وہ مثانے کے کینسر کا شکار ہو گئے اور عوامی سطح پر اُن کی سرگرمیاں محدود ہو گئیں۔

ڈیزمنڈ ٹوٹو کو آخری مرتبہ ستمبر 2019 میں دیکھا گیا جب اُنہوں نے برطانوی شہزادے ہیری اور اُن کی اہلیہ کے دورۂ جنوبی افریقہ کے دوران ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں