عراق: بغداد کے ہوائی اڈے پر راکٹ حملے، سرکاری طیارے کو شدید نقصان

بغداد (ڈیلی اردو/اے ایف پی) عراقی دارالحکومت بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر چھ راکٹ داغے گئے، جس کا الزام ایران نواز جنگجوؤں پر عائد کیا گیا ہے۔ جمعے کے دن حکام نے بتایا ہے کہ یہ راکٹ رن وے اور پارکنگ ایریا میں گرے، جس کی وجہ سے ایک طیارے کو نقصان پہنچا تاہم کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں ہے۔

حالیہ عرصے میں بغداد میں امریکی سفارت خانے اور ہوائی اڈے سے متصل امریکی عسکری تنصیبات پر متعدد راکٹ اور ڈرون حملے کیے جا چکے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق وزارت داخلہ کے ایک ذرائع نے بتایا کہ راکٹ سے بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے رن وے یا پارکنگ ایریاز کو نشانہ بنایا گیا جس میں شہری طیارے کو نقصان پہنچا۔

اب تک کسی نے بھی حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔

ایک دوسرے سیکیورٹی ذرائع نے تصدیق کی کہ حملہ چھ راکٹوں پر مشتمل تھا جو ہوائی اڈے پر شہری تنصیبات کے قریب گرے جس سے طیارے کو نقصان پہنچا، جبکہ تیسرے ذرائع نے طیارے کی شناخت سرکاری ملکیت کے حامل عراقی ایئرویز سے تعلق رکھنے والے بوئنگ 767 کے طور پر کی۔

عراقی ایئرویز نے اپنے فیس بک پیجز پر حملے سے ہونے والے نقصان کی تصاویر پوسٹ کیں جس میں طیارے کے اگلے حصے میں ایک سوراخ دیکھا جا سکتا ہے جو کہ حملے کے وقت قابل استعمال نہیں تھا اور ایئر لائن نے کہا ہے کہ حملے سے کوئی پرواز متاثر نہیں ہوئی۔

حالیہ مہینوں میں راکٹ اور ڈرون حملوں میں بغداد کے انتہائی سیکیورٹی کے حامل گرین زون میں امریکی سفارت خانے، ہوائی اڈے پر موجود امریکی سفارتی سہولیات اور عراقی اڈوں پر تعینات اتحادی افواج کے فوجیوں کو نشانہ بنایا گیا۔

اکثر ان حملوں کی ذمے داری کوئی قبول نہیں کرتا لیکن ان حملوں کے الزامات ایران کے حامی دھڑوں پر لگائے جاتے رہے ہیں جو یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ داعش سے لڑنے کے لیے تعینات کیے گئے امریکی فوجی اب عراق چھوڑ کر چلے جائیں۔

گزشتہ چند ہفتوں میں پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس میں عراقی سیاست دانوں اور جماعتوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

عراقی حکومت کی جانب سے داعش پر فتح کے اعلان کے چار سال بعد امریکی قیادت والے اتحاد نے دسمبر میں عراق میں اپنا جنگی مشن ختم کر دیا تھا۔

لیکن تقریباً ڈھائی ہزار امریکی فوجی اور ایک ہزار اتحادی فوجی عراقی فوج کو تربیت، مشورے اور مدد کی فراہمی کے لیے عراق میں ہی تعینات ہیں۔

اتحادی ذرائع کے مطابق 3 جنوری کو امریکی افواج نے بغداد کے ہوائی اڈے پر افواج کو نشانہ بنانے والے دو مسلح ڈرون مار گرائے تھے۔

13 جنوری کو گرین زون میں ایک اسکول پر راکٹ گرنے سے دو بچوں سمیت تین افراد زخمی ہوئے، جبکہ دو دیگر راکٹ امریکی سفارت خانے کے احاطے میں گرے جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

ستمبر میں ایک مسلح ڈرون حملے نے شمالی عراق کے علاقے کردستان میں اربیل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

حالیہ راکٹ اور ڈرون حملے ایک ایسے موقع پر کیے گئے ہیں جب ملک انتہائی کشیدہ سیاسی صورتحال سے دوچار ہے۔

اکتوبر میں ہونے والے انتخابات میں ایران کے حمایت یافتہ سابق نیم فوجی اتحاد حشد الشعبی کے سیاسی ونگ فتح الائنس نے اپنی زیادہ تر نشستیں کھو دی تھیں جہاں اس اتحاد نے الزام لگایا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔

شیعہ عالم مقتدیٰ صدر کی قیادت میں ایک دھڑے نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور وہ ایک مخلوط حکومت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے ان کے عہدے ے لیے دوبارہ انتخابات کی منظوری دیے جانے کے بعد منگل کو تین راکٹ پارلیمنٹ کے اسپیکر اور مقتدیٰ صدر کے ممکنہ اتحادی محمد الحلبوسی کے گھر کے قریب گرے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں