سعودی عرب پر تنقید: بھارتی خاتون صحافی رعنا ایوب کو قتل اور ریپ کی دھمکیاں

سرینگر (ڈیلی اردو/وی او اے) سرکردہ بھارتی خاتون صحافی اور مصنفہ رعنا ایوب کی سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور ان کے خلاف نامناسب مہم چلانے کا سلسلہ اگرچہ کئی برس سے جاری ہے تاہم اس میں حالیہ ہفتوں میں شدت آگئی ہے۔

رعنا نے گزشتہ ماہ ایک ٹوئٹ کرکے یمن میں جاری جنگ کے متاثرین سے ہمدردری کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ “یمن خون آلودہ ہے اور خون کے پیاسے سعودیوں کو روکنے والا کوئی نظر نہیں آ رہا ہے۔ وہ لوگ اپنے آپ کو اسلام کے نگران کہلاتے ہیں۔

رعنا کی اس ٹوئٹ کو تقریباً نو ہزار لوگوں نے پسند کیا اور 2800 سو لوگوں نے اسے ری ٹوئٹ کیا۔ لیکن ان کی اس ٹوئٹ پر انہیں شدید نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا اور تقریباً 27 ہزار ایسی ٹوئٹس کی گئیں جس میں ان کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے گیے یہاں تک کہ انہیں جان سے مارنے کی بھی دھمکیاں دی گئیں۔

رعنا کی ٹرولنگ کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ تاہم بھارت اور ملک کے باہر کے کئی مقتدر صحافیوں، سول سوسائٹی کارکنوں، بعض سیاسی لیڈروں اور دوسری اہم شخصیات اور عالمی صحافتی تنظیموں نے اس پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

عالمی صحافتی تنظیموں کا شدید ردِ عمل

صحافیوں کے حقوق کا دفاع کرنے والی کئی عالمی تنظیموں نےجن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے)، رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) ، انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس (آئی سی جے) اور انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ ( آئی پی آئی) بھی شامل ہیں بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ رعنا کو ریپ اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے کے معاملے کی فوری تحقیقات کرے۔

آئی پی آئی نے ایک بیان میں کہا “ہم خاموش نہیں رہیں گے اور بھارتی حکام پر زور دیتے ہیں کہ اس بات کا پتہ لگائیں کہ کیا یہ انہیں (رعنا کو) بدنام کرنے کی مربوط کوشش تو نہیں ہے۔

رعنا نے یمن پر اپنی ٹوئٹ کا دفاع کیا اور کہا کہ ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے یمن میں سرگرم حوثی باغیوں کی حمایت کرکے دہشت گردی کا دفاع کیا ہے حالانکہ انہوں نے یمن اور ان کے عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا تھا۔

‘مجھے اور میرے گھر والوں کو ذہنی اذیت دی گئی’

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا یہ صورتِ حال انتہائی تکلیف دہ ہے۔ یہ صریحاً ذہنی ایذا رسانی ہے جس نے نہ صرف مجھے بلکہ میرے اہلِ خانہ کو بھی بری طرح متاثر کر دیا ہے۔ اس سے میرا کام اور زندگی کے باقی معمولات بھی متاثر ہوئے ہیں۔

پیر کو ممبئی پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف ٹوئٹراور انسٹا گرام پر رعنا کو جان سے مارنے اور ریپ کی دھمکیاں بھیجنے پر ایف آئی آر درج کر لی جب کہ کچھ سوشل میڈٰیا اکاؤنٹس کی بھی تفصیلات طلب کر لی گئی ہیں۔

ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر نہ صرف رعنا کی ٹرولنگ کی گئی بلکہ یہ افواہ بھی اڑائی گئی کہ ان پر سعودی عرب حکومت نے پابندی لگا دی ہے اور متحدہ عرب امارات بھی ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ ممبئی پولیس کے ایک عہدیدار نے بتایا “رعنا ایوب کے خلاف نہ صرف فیک نیوز پھیلائی گئی بلکہ انہیں ریپ اور جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ چنانچہ ٹوئٹر اور انسٹا گرام استعمال کرنے والے چار ایسے افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔

ممبئی پولیس کیا کہتی ہے؟

ممبئی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ان ویڈیو ز کی تحقیقات کر رہی ہے۔ ممبئی پولیس کی سائبر سیل کی ڈپٹی کمشنر پولیس ڈاکٹر رشمی کراندیکر نے کہا کہ یہ صحیح ہےکہ رعنا کو کئی نازیبا اور غلیظ تبصرے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی ہیں ، انہوں نے کہا کہ ان کی شکایت پر قانون کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

رعنا ایوب کون ہیں؟

رعنا یکم مئی 1984 کو ممبئی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد محمد ایوب واقف ممبئی سے شائع ہونے والے ہفتہ روزہ بلٹز میں ایک کالم نویس تھے۔ممبئی شہر میں 1992 اور 1994میں پیش آئے فسادات کے دوران ہی ان کا خاندان مسلم اکثریتی علاقے دیونار چلا گیا جہاں رعنا کی پرورش ہوئی۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد رعنا نے صحافت کوپیشے کے طور پر اختیار کرلیا اور دہلی سے شائع ہونے والے تحقیقاتی اور سیاسی جریدے ‘تہلکہ’ کے لیے لکھنے لگیں۔ ان کی بھارت اور بھارت کے باہر شائع ہونے والی رپورٹیں اور مضامین میں اکثر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

بعد ازاں رعنا نے گجرات میں 2002 میں پیش آئے مسلم کُش فسادات پر ‘گجرات فائلز’ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی جس میں ان فسادات کے دوران نریندر مودی کی قیادت میں صوبائی حکومت کے مبینہ کردار اور بلوائیوں کے حوالے سے نرم رویے کو بے نقاب کیا گیا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ معاملہ رعنا ایوب کا ہو یا کسی اور کا بھارت میں سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے بالخصوص حکومت اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہندوتوا نظریے کا پرچار کرنے والوں کے مخالفین کو آئے دن اس طرح کی آن لائن عداوت و مخاصمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سلسلے میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کی سرد مہری اور بعض معاملات میں فرائض سے غفلت برتنا ان عناصر کو حوصلہ بخشنے کا موجب بن رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں