عبدالحفیظ زہری: پاکستان چھوڑنے والا بلوچ نوجوان مبینہ طور پر دبئی سے لاپتہ

کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) فاطمہ بی بی کے بڑے بھائی عبدالحفیظ زہری 27 جنوری سے دبئی سے مبینہ طور پر لاپتہ ہیں، جس کے باعث اُن کی اہلیہ اور آٹھ بچوں سمیت خاندان کے لوگ اضطراب میں مبتلا ہیں۔

بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والی فاطمہ بی بی کا کہنا ہے کہ ’چھوٹے بھائی کی تشدد زدہ لاش ملنے اور والد کے قتل کے بعد اپنی جان بچانے کے لیے میرا بڑا بھائی عبدالحفیظ دبئی چلا گیا لیکن اُنھیں وہاں سے بھی لاپتہ کر دیا گیا۔‘

عبدالحفیظ زہری کی مبینہ گمشدگی کے خلاف بدھ کے روز کراچی میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

اس سلسلے میں دبئی کے متعلقہ حکام کا مؤقف حاصل کرنے کے لیے منگل کو متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر ایک پیغام بھیجا گیا لیکن تادمِ تحریر وہاں سے جواب موصول نہیں ہوا۔

بلوچستان کے مشیر برائے داخلہ و قبائلی اُمور میر ضیاءاللہ لانگو نے اس معاملے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

عبدالحفیظ زہری کون تھے؟

عبدالحفیظ بلوچستان کے ضلع خضدار کے رہائشی تھے۔ اُنھوں نے خضدار کے معروف تعلیمی ادارے بلوچستان ریزیڈینشل کالج سے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی۔

فاطمہ بی بی نے بتایا کہ خضدار میں ان کے والد کا تعمیراتی سامان کا کاروبار تھا اور اس کے علاوہ وہ زمینداری بھی کرتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ تعلیم کے بعد بڑے بیٹے کی حیثیت سے عبد الحفیظ والد کے ساتھ کاروبار کو دیکھتے رہے۔ اس کے علاوہ علاقے میں ان کی جو زمینداری تھی اس کی بھی دیکھ بھال کرنا شروع کی۔

عبدالحفیظ کو بیرون ملک کیوں جانا پڑا؟

عبد الحفیظ کی بہن نے بتایا کہ سب سے پہلے ان کے چھوٹے بھائی عبدالمجید زہری کو سنہ 2011 میں ’جبری طور پر لاپتہ‘ کیا گیا جن کی عمر 14 سال تھی۔

’چھوٹے بھائی کو آٹھ اکتوبر کو والد کے دفتر سے مسلح افراد نے اغوا کیا اور 24 اکتوبر کو ان کی تشدد زدہ لاش پھینک دی گئی۔‘

فاطمہ بی بی نے بتایا کہ چھوٹے بھائی کی مبینہ جبری گمشدگی اور تشدد زدہ لاش کی برآمدگی کے واقعے کے بعد ان کے والد محمد رمضان کو دو فروری 2012 کو اس وقت فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا جب وہ فیروز آباد میں اپنے کھیتوں کی طرف جا رہے تھے۔

اُنھوں نے بتایا کہ معاملہ یہاں پر نہیں رکا بلکہ خضدار میں ان کے گھر پر دستی بم سے حملہ کیا گیا جبکہ ایک وقت مسلح افراد نے گھر میں ان کی گاڑیوں اور دیگر مشینری کو بھی جلا دیا۔

فاطمہ بی بی کے مطابق خضدار میں فیروز آباد کے علاقے اناری میں ان کی زرعی اراضی پر کام کرنے والے کسانوں کی جھگیوں اور گھروں کو بھی جلایا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ان کے بڑے بھائی عبدالحفیظ کی زندگی کو شدید خطرات لاحق تھے جس کے باعث ان کو بلوچستان میں اپنا گھر بار مجبوراً چھوڑ کر دبئی منتقل ہونا پڑا۔

اس سوال پر ان کے خاندان کے لوگوں اور ان کے املاک کو کیوں نقصان پہنچایا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ یہی سوال اُن کا بھی ہے کہ اُنھیں کیوں مارا جا رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’ہم یہی کہتے ہیں کہ اگر ہمارا کوئی قصور ہے تو ہمیں بتایا جائے۔ ورنہ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ بلوچ ہونا ہمارا قصور ہے۔‘

واضح رہے کہ بلوچستان میں لوگوں کی جانب سے اس طرح کے واقعات کا عمومی طور پر ذمہ دار پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو ٹھہرایا جاتا ہے تاہم سکیورٹی فورسز ان واقعات میں ملوث ہونے کی تردید کرتی ہیں۔

عبدالحفیظ کب دبئی منتقل ہوئے؟

فاطمہ بی بی نے بتایا کہ عبدالحفیظ پہلے سنہ 2012 میں خود دبئی منتقل ہوئے اور اس کے بعد اُنھوں نے سنہ 2014 میں اپنے بچوں کو بھی بلا لیا۔

اُنھوں نے بتایا کہ اُن کے بھائی نے دبئی کے انٹرنیشنل سٹی والے علاقے کو رہائش اور کاروبار کے لیے منتخب کیا۔ ’پہلے بھائی نے وہاں ایک سٹور کے ساتھ ایک کیفے ٹیریا کھولا لیکن یہ دونوں نہ چل سکے، جس کے بعد اُنھوں نے سنہ 2014 میں بلڈنگ مٹیریئل کی ایک کمپنی بنائی۔‘

اُنھوں نے بتایا کہ اس کمپنی کی وجہ سے ان کا کام تھوڑا بہت چل گیا اور ان کے ساتھ 30 سے 40 لوگ کام کرنے لگے۔

’محنت اور کوششوں کے بعد وہ کسی حد تک سیٹ ہو گئے تھے لیکن وہ وہاں سے بھی لاپتہ کر دیے گئے۔‘

عبدالحفیظ کی گمشدگی پر خاندان کا کیا کہنا ہے؟

فاطمہ بی بی نے بتایا کہ عبدالحفیظ انٹرنیشنل سٹی کے جن فلیٹس میں رہائش پذیر تھے، وہاں بعض لوگ آئے تھے اور سکیورٹی گارڈ سے عبد الحفیظ کے بارے میں سوالات کیے تھے۔

عبدالحفیظ کے خاندان نے سکیورٹی گارڈ سے ہونے والی بات چیت کی بنا پر بتایا ہے کہ یہ لوگ دبئی کی سکیورٹی ایجنسیز کے اہلکار تھے اور اُنھوں نے سکیورٹی گارڈ کو اپنے متعلقہ ادارے کے کارڈ دکھا کر اپنا تعارف بھی کروایا تھا۔

ان کے ایک مرد رشتہ دار نے بتایا کہ ان سکیورٹی ایجنسیز کے اہلکاروں کے ہمراہ اس کمپنی کے اہلکار بھی تھے جن کے پاس سکیورٹی سے متعلق کیمروں کا انتظام ہوتا ہے اور اس کمپنی کو وہاں سرا (SIRA) کہا جاتا ہے۔

فاطمہ بی بی نے بتایا کہ دبئی کے سکیورٹی ایجنسیز کے اہلکاروں نے فلیٹس کے سکیورٹی گارڈز سے عبدالحفیظ کی رہائش گاہ اور اس پارکنگ ایریا کے بارے میں پوچھا تھا جہاں وہ اپنی گاڑی کھڑی کرتے تھے۔

اُنھوں نے کہا کہ فلیٹس کے سکیورٹی گارڈ نے سکیورٹی اداروں سے تعلق رکھنے والے اِن اہلکاروں کو بتایا تھا کہ تاحال عبد الحفیظ گھر نہیں آئے لیکن اگر وہ ان کے گھر جانا چاہتے ہیں تو وہ اِنھیں ان کا گھر دکھائیں گے لیکن اُنھوں نے گھر جانے کے بجائے وہیں گیٹ پر انتظار کیا۔

اُنھوں نے کہا کہ جب عبدالحفیظ اپنے گھر کی جانب آئے تو اُنھوں نے ان کو گیٹ پر نہیں روکا تھا بلکہ انھیں پارکنگ ایریا سے اٹھا کر لے گئے۔

دبئی سے ان کے ایک اور مرد رشتے دار نے بتایا کہ عبد الحفیظ کو جس علاقے سے لاپتہ کیا گیا وہ خوانیج پولیس سٹیشن کا علاقہ ہے۔

فاطمہ بی بی کے مطابق پولیس میں بھائی کی گمشدگی کی اطلاع دی گئی جس کے بعد ایک پولیس اہلکار نے اس علاقے کا بھی معائنہ کیا جہاں سے عبدالحفیظ کو اٹھایا گیا تھا لیکن ابھی تک ان کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس سٹیشن کے اہلکاروں نے دبئی میں ان کے رشتہ داروں کو بھائی کی گمشدگی رپورٹ کے اندراج کے حوالے سے کوئی دستاویز تو نہیں دی تاہم ان کو ایک ریفرینس نمبر دیا جو کہ دبئی پولیس کی ایک ایپلیکیشن میں کھلتا ہے۔

’خاندان کے غم میں ایک نیا اضافہ‘

فاطمہ بی بی نے بتایا کہ ان کے خاندان کے لوگوں کو جس ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، اس کے باعث وہ پہلے ہی غمزدہ تھے لیکن اب دبئی سے بھائی کی گمشدگی نے ان کے دکھ اور مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی اپنی اہلیہ اور آٹھ بچوں کے ساتھ دبئی میں مقیم تھے۔

’ایک پریشانی بھائی کی ہے جبکہ دوسری پریشانی ان کے بچوں کی کہ اب اپنے والد کے بغیر ان کا وہاں کیا بنے گا۔‘

اُنھوں نے دبئی کے حکام سے اپیل کی کہ اگر ان کے بھائی کے خلاف کوئی الزام ہے تو وہ ان کا ٹرائل اپنے قوانین کے مطابق کریں اور ان کو پاکستانی حکام کے حوالے نہ کریں۔

بدھ کو عبدالحفیظ کی بازیابی کے لیے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

مظاہرے کے شرکا کے ہاتھوں میں بینر تھے جن میں سے بعض پر یہ نعرہ درج تھا کہ عبدالحفیظ کو پاکستان حوالگی سے بچایا جائے۔

ایک اور بینر پر یہ درج تھا کہ دبئی کے حکمران عبدالحفیظ کی بازیابی میں مدد کریں۔ اس موقع پر مقررین نے اپنے خطاب میں عبدالحفیظ کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان پر کوئی الزام ہے تو ان کو دبئی کی عدالت میں پیش کیا جائے۔

جب عبدالحفیظ کی دبئی میں مبینہ گمشدگی کے بارے میں بلوچستان کے مشیر داخلہ سے رابطہ کیا گیا تو اُنھوں نے اس سلسلے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔

اُنھوں نے کہا کہ ان کی گمشدگی کے حوالے سے ان کے رشتہ داروں نے محکمہ داخلہ سے نہ رابطہ کیا اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی درخواست دی۔

ایک سوال پر اُنھوں نے بتایا کہ بلوچستان کے محکمہ داخلہ کی جانب سے بھی عبدالحفیظ نامی کسی شخص کی پاکستان کو حوالگی کے لیے کوئی درخواست نہیں کی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں