یمن میں ڈیرھ لاکھ سے زائد افراد کو قحط سالی کا سامنا

جینوا (ڈیلی اردو/وی او اے) اقوام متحدہ کی درجن بھر سے زیادہ ایجنسیوں اور بین الاقوامی امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ یمن میں 2022 کے دوسرے نصف حصے میں ایک لاکھ 61 ہزار افراد کو قحط سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ اندازہ موجودہ اعداد و شمار سے پانچ گنا زیادہ ہےاور امدادی گروپوں کی طرف سے پیر کو جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ہے جسے انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن کہا جاتا ہے۔ یہ تنظیم یمن میں کام کرنے والی اقوام متحدہ کے 15 اداروں اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں کا عالمی گروپ ہے،جس کی مالی امداد یورپی یونین،یو ایس ایڈ اور یو کے ایڈ کرتا ہے۔

رپورٹ میں اس عرب ملک کی صورت حال کی سنگین تصویر پیش کی گئی ہے جو سات سال سے زیادہ عرصہ قبل اس وقت خانہ جنگی کا شکار ہوگیا تھا جب ایران کی سرپرستی کے باغی حوثی گروپ نے دارلحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔یہ سخت انتباہ یمن کے لیے سالانہ امدادی کانفرنس کے موقع پر آیا ہے جس کی میزبانی بدھ کو اقوام متحدہ کرے گی۔

سعودی قیادت میں ،ایک اتحاد ،مارچ سن 2015 میں، جنگ میں داخل ہوا۔اس وقت اسے امریکہ کی سرپرستی حاصل تھی۔ کوشش یہ تھی کہ بین الاقوامی تسلیم شدہ حکومت کا اقتدار بحال کر دیا جائے۔ جنگ میں بہت زیادہ تباہی ہو چکی ہے ،اور جس کی وجہ سے وہاں دنیا کا بدترین انسانی بحران پیدا ہو گیا ہے۔

عالمی خوراک پروگرام کے سربراہ ،ڈیوڈ بیسلے کا کہنا ہے کہ یہ خوفناک اعداد وشمار تصدیق کرتے ہیں کہ ہم یمن میں تباہی کے دھانے پر ہیں اور وقت بڑی حد تک ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ انہوں نے فوری طور پر فنڈز کی اپیل کی ،تاکہ اس تباہ حالی کو روکا جاسکے اور لاکھوں لوگوں کی جانیں بچائی جاسکیں۔

آئی پی سی کی رپورٹ کے مطابق، یمن کی 30 ملین سے زیادہ کی آبادی میں سے19 ملین کے قریب افراد جون سے دسمبر کے مہینے کے دوران ،کم سے کم خوراک کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہے۔ رپورٹ کے مطابق 22 لاکھ بچے ،جن میں پانچ لاکھ 38 ہزار، پہلے ہی غذائیت کی شدید کمی کا شکار ہیں، اور تقریباً 13 لاکھ عورتیں، اس سال کے آخر تک ،غذا کی انتہائی کمی کا نشانہ بن سکتی ہیں

یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ،کیتھرین رسل کہتی ہیں کہ یمن میں زیادہ سے زیادہ بچے بھوکے سو جاتے ہیں ،جس سے انہیں شدید جسمانی اور ذہنی نقصان پہنچ سکتا ہے، بلکہ وہ موت کا شکار ہو سکتے ہیں

رپورٹ میں بتایا گیا ہے، بھوک کی سب بڑی وجہ، جنگ ہے اور یوکرین میں جنگ کے بعد ،بحران کے بد ترین ہونے کا امکان ہے۔اقوام متحدہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ یمن ،زیادہ تر خوراک کی درآمد پر انحصار کرتا ہے ،جس میں 30 فیصد گندم یوکرین سے آتی ہے۔

انسانی حقوق کے یمن میں رابطہ کار ڈیوڈ گریسلی کا کہنا ہے کہ صرف امن ہی اس تباہی کو روک سکتا ہے۔ کچھ پیش رفت اب بھی کی جاسکتی ہے۔جنگ میں شریک فریقوں کو، ایسی اشیاء پر سے ،جن کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں ہے تجارت اور سرمایہ کاری کی پا بندیاں ہٹا لینی چاہیے۔

اس سے ہٹ کر ،اقوام متحدہ کے نائب ترجمان، فرحان حق کا کہنا ہے کہ، فنڈز میں کمی کی وجہ سے، مجبوراً، یمن میں امدادی پروگراموں کو انتہائی درجے کم یا ختم کرنا پڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 80 لاکھ لوگوں کی خوراک کی امداد میں ،شدید کٹوتی کی گئی ہے اور آنے والے ہفتوں میں 40 لاکھ کے قریب افراد صاف پانی اور نکاسی آب سے محروم ہو جائیں گے۔ فرحان حق نے، آنے والے فنڈ ریزر کو، ایک ایسا موقع قرار دیا ،جس میں دنیا یہ ثابت کرسکے کہ وہ یمن کو نہیں بھولی ہے، باوجود یکہ، دوسرے عالمی بحران توجہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے عطیہ دہندگان سے اپیل کی کہ فراخدلانہ وعدے کریں اور جلد از جلد فنڈز مہیا کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں