کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا رمضان المبارک میں حملے تیز کرنے کا اعلان

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضؒلاع میں دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں میں پاکستانی فوج کے دو افسروں سمیت نو اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد حالات کشیدہ ہیں۔ کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) نے ان حملوں کی ذمے داری قبول کی ہے اور رمضان میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف حملے تیز کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

ضلع ٹانک میں فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے ایک کیمپ پر عسکریت پسندوں نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب حملہ کیا تھا۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ‘تین دہشت گردوں نے ٹانک کے علاقے میں ایک فوجی کمپاؤنڈ میں داخل ہونے کی کوشش کی، اس دوران سیکیورٹی اہلکاروں نے جوابی کارروائی کی جس میں تین دہشت گرد مارے گئے۔”

آئی ایس پی آر کے مطابق فائرنگ کے اس تبادلے میں چھ اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔اس سے قبل منگل کو سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان جنوبی وزیرستان کے علاقہ مکین میں فائرنگ کے تبادلے میں پاکستانی فوج کے 25 سالہ کپتان سعد بن عامر ہلاک ہو گئے تھے۔

ٹی ٹی پی مارچ میں مجموعی طور پر دہشت گردی کی 39 کارروائیوں کی ذمے داری قبول کر چکی ہے۔

یہ حملے جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، چترال، پشاور، مہمند ایجنسی، کرم ایجنسی، خیبر ایجنسی، باجوڑ ایجنسی، لکی مروت، ٹانک اور درہ آدم خیل میں کیے گئے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں کارروائیوں میں تیزی سے اضافہ متوقع تھا۔

‘ٹی ٹی پی نہ تو ختم اور نہ ہی افغان طالبان میں ضم ہوئی ہے’

شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے محقق اور پشاور یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر سید عرفان اشرف کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی نہ تو مکمل طور پر ختم ہوئی ہے اور نہ ہی افغان طالبان میں ضم ہوئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان نے بگرام، قندھار اور پل چرخی میں قید تمام قیدیوں کو رہا کر دیا جن میں تین ہزار کے لگ بھگ ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی شامل تھے۔

اُن کے بقول جس طرح افغان طالبان ‘اسپرنگ آفینس’ یعنی موسمِ بہار میں افغانستان میں حملوں میں شدت لے آتے تھے، اسی طرح پاکستانی طالبان بھی پاکستان میں اسی حکمتِ عملی کے تحت حملے کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر عرفان اشرف کہتے ہیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت آ سکتی ہے کیوں کہ مذاکرات کے ادوار کے باوجود ریاستِ پاکستان اور تحریکِ طالبان کے درمیان کوئی امن معاہدہ نہیں ہوا۔

‘ٹی ٹی پی جنگجوؤں کے گھات لگا کر حملوں میں اضافہ ہوا ہے’

اُن کے بقول ٹی ٹی پی کے جنگجو اپنی کارروائیوں میں اب گھات لگا کر بھی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس سے قبل ٹی تی پی کے جنگجو مختلف شاہراوں اور چوراہوں میں بم دھماکے کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے عام شہریوں کا جانی و مالی نقصان زیادہ ہوتا تھا۔

پاکستان میں اکثر کالعدم تنظیمیں ماہِ رمضان کے احترام میں شدت پسندی کی کارروائیوں میں کمی لاتی رہی ہیں، لیکن ٹی ٹی پی نے اپنے تازہ پیغام میں اپنی کارروائیوں میں شدت لانے کا کہا ہے ۔

ڈاکٹر عرفان اشرف کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی نے سیکیورٹی فورسز کو واضح پیغام دیا ہے کہ اب وہی ان کے نشانے پر ہوں گے۔ موسم ان کے لیے سازگار ہے اور برف نہ ہونے کی وجہ سے سرحد پار گزرگاہیں بھی کھلی ہوں گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب تک ٹی ٹی پی کے ساتھ جامع مذاکرات کے ذریعے کوئی دیرپا حل نہیں نکالا جاتا، اس وقت تک یہ کارروائیاں جاری رہیں گی۔

گزشتہ سال اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے کم از کم 6000 دہشت گرد افغان سرزمین پر موجود ہیں۔

پاکستان کی جانب سے متعدد مرتبہ افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے حملوں اور سرحد پار کارروائیوں کی روک تھام کے بارے میں کہا گیا تاہم اس بابت پاکستانی درخواست کی کوئی خاص شنوائی نہیں ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان گزشتہ سال ایک ماہ کی جنگ بندی بھی ہوئی تاہم زیادہ دیر نہیں چل سکی اور تب سے فریقین کے درمیان کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

پاک فوج کے مطابق 2014 میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں تمام دہشت گردوں کا صفایا کیا گیا۔ تاہم علاقے کی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک سے جڑے افراد اب بھی علاقے میں موجود ہیں۔

‘دہشت گرد گروپ اپنی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے کوشاں ہیں’

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر جرگہ ممبر نے وائس آف امریکہ کو نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اگرچہ علاقہ میں ٹی ٹی پی کے اہلکاروں کا کوئی منظم گروپ نہیں ہے تاہم خوف و ہراس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

اُن کے بقول سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے ساتھ ساتھ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور رات کے وقت زیادہ تر رہائشی گھروں میں رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے منسلک دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیر (ر) سید نذیر کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد تمام جہادی گروپوں نے اپنی بقا کے لیے دوبارہ سے سر اٹھایا تاکہ وہ اپنی اہمیت اُجاگر کر سکیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ ٹی ٹی پی چاہتی تھی کہ وہ اپنے سلیپنگ سیلز کو دوبارہ سے متحرک کرے اور شدت پسند گروپ کا حصہ بننے والے نئے جنگجوؤں کو ایک ہی گروپ کے نیچے منظم کیا جائے۔

بریگیڈیر (ر) سید نذیرکا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ سال ہونے والی ایک ماہ کی جنگ بندی کے دوران سیکیورٹی فورسز نے کافی لوگوں کو حراستی مراکز سے رہا کیا۔ کچھ اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان واپس آئے تاہم کچھ ‘ہارڈ کور’ عناصر ایسا نہیں چاہتے تھے کہ یہ معاملہ ختم ہو۔

‘ٹی ٹی پی سے معاہدہ ہی مسئلے کا دیرپا حل ہے’

ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کو روکنے کے ممکنہ حل کے حوالے سے انہوں نے واضح کیا کہ کسی بھی جنگ کا خاتمہ کسی ڈیل یا معاہدے پر ہی ہوتا ہے۔ اس کے لیے گارنٹر (ذمہ داروں) کی ضرورت ہوتی ہے۔ سہولت کار کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ امن معاہدے کے دوران سہولت کاری کارآمد ثابت نہیں ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ جہاں تک ان کی معلومات ہیں ابھی بھی ایک سطح پر بات چیت جاری ہے۔ کچھ جنگجو اپنے خاندان سمیت واپس آ چکے ہیں۔

بریگیڈیئر سید نذیر کا مزید کہنا تھا کہ یوکرین کی جنگ کی وجہ سے ٹی ٹی پی کو کچھ مزید وقت ضرور ملا ہے۔ کیونکہ دنیا کا فوکس اب یوکرین پر مرکوز ہو گیا ہے ورنہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک بشمول چین اور ایران کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ افغان سرزمین ہمسایہ ممالک کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے طور پر استعمال ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں