صحافی جمال خاشقجی کا مقدمہ سعودی عرب منتقل کرنے کی درخواست

استنبول (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی/روئٹرز) صحافی جمال خاشقجی سعودی شاہی خاندان کے ایک کھلے ناقد تھے، انہیں 2018 میں استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اب ترکی نے عدالت سے مشتبہ افراد کے مقدمے کو سعودی عرب منتقل کرنے کی درخواست کی ہے۔

ترکی کے ایک مستغیث نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 26 سعودی مشتبہ افراد کے مقدمے کو معطل کر کے، اسے سعودی عرب میں عدالت کو منتقل کرنے کی درخواست کی۔

یہ اقدام ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ترکی سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ استنبول میں جمال خاشقجی کے قتل کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔

واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی جمال خاشقجی سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں کے ایک سرکردہ ناقد تھے۔ انہیں 2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانے کے اندر قتل کرنے کے ساتھ ہی ان کی باقیات کو بھی تلف کر دیا گیا تھا۔

ان کے قتل کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کافی آوازیں اٹھیں اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر اس کا دباؤ بھی پڑا۔ بعد میں امریکی انٹیلیجنس نے انہیں پر اس قتل کی اجازت دینے کا الزام بھی عائد کیا، تاہم محمد بن سلمان اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔

اس وقت ترک حکام نے کہا تھا کہ ان کے خیال میں خاشقجی کو ایک خفیہ آپریشن کے تحت قتل کیا گیا اور ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا تھا کہ اس قتل کا حکم سعودی حکومت میں، ”اعلیٰ ترین سطح” پر دیا گیا تھا۔

سن 2020 میں سعودی عرب نے اس قتل کے جرم میں آٹھ افراد کو سات سے 20 برس کے درمیان تک کی قید کی سزا سنائی تھی۔ تاہم کسی بھی مجرم کے نام کا آج تک انکشاف نہیں ہوا اور اس لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اسے ایک شرمناک اور فریب پر مبنی مقدمہ قرار دیا۔

اس دوران 26 سعودی شہریوں پر ترکی میں تقریباً دو برس سے ان کی غیر حاضری میں مقدمہ چل رہا ہے۔ کیس کی نگرانی کرنے والی استنبول کی ایک عدالت نے کہا کہ وہ اس مقدمے کو دوسری جگہ منتقل کرنے سے متعلق درخواست پر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے وہ وزارت انصاف کی رائے طلب کرے گی۔ اگلی سماعت سات اپریل کو ہونی ہے۔

خاشقجی کی منگیتر کا ‘دل ٹوٹ گیا’

جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجے چنگیزی جمعرات کو ہونے والی عدالتی سماعت میں شریک ہوئی تھیں۔ انہوں نے اس درخواست کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا: ”مقدمہ سعودی عرب بھیجنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

ان کا مزید کہنا تھا، ”ہم سب جانتے ہیں کہ وہاں کے حکام کچھ بھی نہیں کریں گے۔ ہم خود قاتلوں سے تفتیش کرنے کی امید کیسے کر سکتے ہیں؟

حقوق انسانی کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی پراسیکیوٹر کی درخواست پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر انقرہ مقدمے کی منتقلی کی اجازت دیتا ہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ وہ بھی اس کو چھپانے میں ملوث ہو گا۔

ترکی میں ایمنسٹی کی مہم کے ڈائریکٹر طارق بیہان نے کہا، ”اپنی سرزمین پر ہونے والے قتل کا مقدمہ چلانے اور اس پر روشنی ڈالنے کے بجائے… ترکی جان بوجھ کر اور اپنی مرضی سے کیس کو ایسی جگہ بھیج دے گا جہاں اس کی پردہ پوشی کی جائے گی۔”

کشیدہ تعلقات

جمال خاشقجی کے قتل اور اس کے بعد کے الزامات کے سبب دونوں علاقائی طاقتوں، سعودی عرب اور ترکی، کے درمیان تعلقات کافی خراب ہو ئے اور اس کے نتیجے میں غیر سرکاری سطح پر سعودی عرب میں ترکی کے سامان کا بائیکاٹ بھی ہوا۔ یہاں تک کہ سعودی عرب کے لیے ترکی کی برآمدات میں 90 فیصد کمی واقع ہو گئی۔

طیب ایردوآن اب عرب کی ان ریاستوں کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں جو حالیہ برسوں میں ان کے حریف بن چکے ہیں۔ اس میں مصر، اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک شامل ہیں۔

رواں برس کے آغاز میں ترک صدر نے کہا تھا کہ وہ ریاض کے ساتھ جلد ”ٹھوس اقدامات” اٹھانے کی امید رکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں