صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا مقدمہ ترکی سے سعودی عرب منتقل

انقرہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث 26 ملزمان کے خلاف ترکی میں جاری مقدمے کی کارروائی روک دی گئی ہے۔

مقدمہ سننے والے جج نے اعلان کیا ہے کہ یہ کیس اب سعودی عرب کے حوالے کر دیا جائے گا، جو ملزمان کی ترکی کو حوالگی سے انکار کرتا رہا ہے۔

خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیز کا کہنا ہے کہ وہ انصاف کے حصول کی جنگ جاری رکھیں گی۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے جرنلسٹ کو سنہ 2018 میں سعودی قونصلیٹ میں بہانے سے بلا کر قتل کر دیا گیا تھا۔ سعودی ایجنٹوں کے ہاتھوں کیے گئے اس قتل پر عالمی سطح پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔

اس قتل سے متعلق ایک مقدمے میں ایک سعودی عدالت کی طرف سے 2019 میں آٹھ نامعلوم افراد کو سزا سنائی گئی تھی۔

جمعرات کو آنے والا عدالتی فیصلہ ترکی کے وزیر انصاف کی جانب سے وکیل استغاثہ کی اس درخواست کی منظوری کے بعد کیا گیا جس میں استدعا کی گئی تھی کہ مدعا علیہان کی عدم موجودگی کی وجہ سے مقدمے کی کارروائی میں کوئی پیش رفت ممکن نہیں رہی ہے لہذا اسے روک دیا جائے۔ وکیل استغاثہ نے کہا کہ سعودی حکام ملزمان پر عائد الزامات کا جائزہ لیں گے۔

حقوق انسانی کے کارکنوں نے اس فیصلے کو آنکھ میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

ترکی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اہلکار ملینا بایون نے کہا کہ یہ ایک ’بھیانک اور کھلم کھلا ایک سیاسی فیصلہ ہے۔‘

انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’کیس سعودی حکام کے حوالے کرنے پر اتفاق، ایک ہی جملے میں، ایک دم سے۔ یہ کہنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کیا کہ وکلا کی درخواستوں کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ بھیانک اور کھلم کھلا ایک سیاسی فیصلہ۔‘

اے ایف پی کے مطابق خاشقجی کی منگیتر خدیجہ نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گی۔

انھوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا: ’جمال کو انصاف دلانے کے لیے میری جنگ ختم نہیں ہوئی۔ عدالتیں ان کے مقدمے سے متعلق حقائق کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہیں، مگر میں چین سے بیٹھوں گی اور نہ ہی خاموش رہوں گی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جمال کے قتل کا ذمہ دار کون ہے اور اب یہ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ میں اپنی جد و جہد جاری رکھوں۔‘

یہ عدالتی فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ترکی سعودی عرب سے اپنے تعلقات میں بہتری لانا چاہتا ہے۔

اس قتل کے بعد دونوں علاقائی طاقتوں کے درمیان تعلقات بڑی حد تک خراب ہو گئے تھے یہاں تک کہ سعودی عرب نے ترک برآمدات کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ کر دیا تھا۔

جمال خاشقجی کو، جو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے نقاد تھے، آخری مرتبہ 2 اکتوبر 2018 کو استنبول میں سعودی قونصلیٹ میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ وہ وہاں اپنی منگیتر سے شادی کرنے کے لیے درکار کاغذات حاصل کرنے گئے تھے۔

اس وقت اقوام متحدہ کی اہلکار ایگنس کیلامرڈ نے تفتیش کے بعد نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ریاض سے آنے والی 15 رکنی ٹیم نے بلڈنگ کے اندر ان کا ’وحشیانہ قتل‘ کیا تھا اور ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے تھے۔ وہ قونصلیٹ کے اندر ہونے والی گفتگو کی ان مبینہ ریکارڈنگ کو سننے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی تھیں جو انھیں ترک انٹیلیجنس نے فراہم کی تھیں۔

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے الزام لگایا تھا کہ خاشقجی کا ’سفاکانہ قتل ایک ڈیتھ سکواڈ‘ نے کیا تھا جو ریاض سے بھیجا گیا تھا، انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’یہ بات طے ہے کہ انھیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا ہے۔‘

امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا دعویٰ ہے کہ ولی عہد نے، جو عملی طور پر سعودی عرب کے حکمراں ہیں، خاشقجی کو ہلاک کرنے کے آپریشن کی منظوری دی تھی۔

شہزادے نے اس قتل میں اپنے کسی کردار کی تردید کی تھی اور سعودی استغاثہ نے ’بد معاش‘ ایجنٹوں پر الزام لگایا تھا۔

ایک برس بعد سعودی عدالت نے پانچ افراد کو اس قتل میں ملوث ہونے کے جرم میں سزائے موت سنائی تھی جو بعد میں 20 سال قید میں بدل دی گئی، جبکہ تین دوسرے افراد کو جرم پر پردہ ڈالنے کی پاداش میں 7 سے 10 سال قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔

ترکی نے اس فیصلے کو ’شرمناک‘ قرار دیا تھا اور تقریباً دو برس سے استنبول کی ایک عدالت میں 26 سعودی اہلکاروں کے خلاف ان کی غیر موجودگی میں سوچے سمجھے قتل کا منصوبہ بنانے کے الزام میں مقدمہ چل رہا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں