سپریم کورٹ کی طرف سے قومی اسمبلی کو بحال کرنے کا حکم

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) پاکستان کی سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کو تحلیل کیے جانے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔ ساتھ ہی اس فیصلے میں قومی اسمبلی کو بھی بحال کر دیا گیا ہے۔ نو اپریل کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا تھا۔ چیف جسٹس کا سماعت کے دوران کہنا تھا کہ یہ مفاد عامہ کا کیس ہے اور وہ تمام معاملات کا بغور جائزہ لیں گے۔ عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا اعلان مقامی وقت کے مطابق شام ساڑھے سات بجے کیا جائے گا لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر فیصلہ سنانے میں مزید تاخیر کی گئی۔ فیصلہ سنانے سے پہلے سپریم کورٹ کی سکیورٹی سخت کر دی گئی تھی اور رینجرز کو سپریم کورٹ کے اندر بلا لیا گیا تھا۔

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو تمام جج صاحبان نے متفقہ طور پر غیرآئینی قرار دیا ہے۔ اب ہفتے والے دن دوبارہ تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں نئے وزیراعظم کا انتخاب کیا جائے گا۔

مولانا فضل الرحمان نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے جمعے کو یوم تشکر منانے کا اعلان کیا ہے۔

قبل ازیں مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا، ”ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئین اور قانون کے خلاف تھی اس کو اب صرف کاالعدم قرار دینا ہی کافی نہیں ہو گا۔ آئین اور قومی مفاد کا تقاضہ یہی ہے کہ پارلیمنٹ کے آئینی اختیارات فوری بحال ہوں تاکہ پارلیمنٹ اپنی ذمہ داریاں اور فیصلے آئین اور قانون کے مطابق جاری رکھ سکے۔‘‘

عدالت کا یہ فیصلہ آنے سے قبل بلاول بھٹو زرداری نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ” ہم اسپیکر کی رولنگ پر عدالت کی آبزرویشن کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ عدالت کو یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ ایسا غیر آئینی اقدام کیوں اٹھایا گیا؟‘‘ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ عمران خان حکومت انتخابی اصلاحات کے بغیر الیکشن کروانا چاہتی ہے جبکہ متحدہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ پہلے انتخابی اصلاحات ہوں اور پھر انتخابات کا انعقاد کروایا جائے۔

دریں اثناء پاکستان الیکشن کمیشن نے کہا ہے صدارتی حکم کے برعکس وہ نوے دن کے اندر اندر انتخابات کروانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق وہ جلد از جلد بھی انتخابات کروائیں تو یہ اکتوبر کے مہینے میں ہوں گے۔

سابق کرکٹ اسٹار عمران خان گزشتہ ہفتے اپنی پارلیمانی اکثریت سے محروم ہو گئے تھے اور قریب تھا کہ اتوار کو اپوزیشن کی طرف سے پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انہیں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹا دیا جاتا۔ لیکن پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری، جن کا تعلق عمران خان کی ہی پارٹی سے ہے، نے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرتے ہوئے اسے غیرملکی سازش کا حصہ اور آئین کے منافی قرار دے دیا۔ اس کے بعد ملکی پارلیمان تحلیل کر دی گئی۔

اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد میں ووٹنگ کو روکنے کے فیصلے کو ملکی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا اور ملکی کی اس اعلیٰ ترین عدالت نے اس کیس کی سماعت کا آغاز پیر کے روز شروع کر دیا تھا اور آج اس کیس کی سماعت کا چوتھا دن تھا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بدھ کو کہا تھا کہ وہ کیس کی سماعت کو جلد از جلد منتطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کر رہا تھا۔

عمران خان کے حامیوں کا موقف تھا کہ اپوزیشن غیر ملکی حمایت سے وزیراعظم کو بے دخل کرنا چاہتی تھی جو کہ ایک غیر آئینی عمل ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کیا تھا۔

سپریم کورٹ کے پاس یہ آپشن تھی کہ وہ پارلیمان کو بحال کر دے یا پھر نئے انتخابات کروانے کا اعلان کرے۔ سپریم کورٹ عمران خان کو اقتدار سے الگ کرتے ہوئے ان کے اقدام کو غیرآئنی قرار دے سکتی تھی۔

ملکی فوج ماضی میں ایسی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر خود بھی اقتدار سنبھال چکی ہے لیکن اس مرتبہ فوج کا کہنا ہے کہ ان کا موجودہ بحران میں کوئی کردار نہیں ہے۔

اس سیاسی بحران نے 220 ملین آبادی والے پاکستان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان سن 1947 کو معرض وجود میں آیا تھا لیکن اس ملک میں کئی مرتبہ مارشل لاء نافذ کرتے ہوئے فوج حکمران رہی۔ آزادی کے بعد سے پاکستانی مسلسل آئینی بحرانوں کا سامنا کرتے آیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں