سیاسی مخالفین پر توہین مذہب کے مقدمات: صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا اظہار تشویش

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کی صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت کی جانب سے سیاسی مخالفین پر توہینِ مذہب کے مقدمات کے اندراج پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس عمل کو ایک خطرناک رجحان قرار دیا ہے۔

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے الگ الگ بیانات میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف توہینِ مذہب کی شقوں کے تحت درج مقدمات واپس لیے جائیں۔

سعودی عرب کے شہر مدینہ میں مسجد نبوی میں پاکستان کے حکومتی وفد میں شامل رہنماؤں کے خلاف نعرے بازی کے واقعے پر سابق وزیرِ اعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، سابق وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد سمیت 150 افراد کے خلاف فیصل آباد میں توہینِ مذہب کے مقدمات درج کیے گئے تھے۔

مقدمات کے اندراج کے بعد وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ نے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان افراد کو قطعی طور پر معافی نہیں دی جا سکتی۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ایچ آر سی پی نے کہا ہے کہ کوئی حکومت یا سیاسی جماعت مخالفین کے خلاف توہینِ مذہب کا الزام بطور ہتھیار استعمال کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

انسانی حقوق اور صحافتی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں پر جو مقدمات سیکشن 295-اے کے تحت درج کیے گئے ہیں انہیں واپس لیا جائے۔

ان مقدمات کے تحت حزبِ اختلاف کی جماعت تحریکِ انصاف کے رکن قومی اسمبلی شیخ راشد شفیق کو سعودی عرب سے واپسی پر ہوئی اڈے پر گرفتار کرلیا گیا تھا۔ شیخ راشد شفیق نے مدینہ منورہ سے اس واقعہ پر ویڈیو تبصرہ کرتے ہوئے عمران خان کو فاتح قرار دیا تھا۔

شیخ رشید نے منگل کو نماز عید کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بھتیجے شیخ راشد شفیق کو نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے اور ان کے خاندان کو ان تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

انہوں نے تنبیہ کی کہ سیاسی صورتِ حال کے باعث بازاروں و محلوں میں لوگوں کے درمیان تناؤ پایا جاتا ہے۔ فوری طور پر بے بنیاد مقدمات کا خاتمہ کیا جائے۔

تعزیراتِ پاکستان 1860 کی دفعہ 295-اے کے مطابق کسی فرقے کے مذہبی احساسات یا عقائد کی توہین کرکے بے حرمتی کرنا قابل تعزیر جرم ہے جس کی سزا 10 سال تک قید اور جرمانہ ہو سکتی ہے۔

تحریکِ انصاف نے توہینِ مذہب کے مقدمات کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پولیس کو حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف نو مئی تک کارروائی سے روک دیا۔

توہینِ مذہب کے تحت سیاسی رہنماؤں پر مقدمات کے اندراج پر حکومت کی اتحادی جماعتوں نے بھی تحفظات ظاہر کیے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے حزبِ اختلاف کے رہنماؤں پر توہینِ مذہب کے مقدمات کے اندراج کی مذمت کی ہے۔

اپنے بیان میں فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کے رہنماؤں پر توہینِ مذہب کے مقدمات تشویشناک ہیں۔ ماضی میں ہمیشہ مذہب کے بطور ہتھیار استعمال کی مذمت کی ہے۔ اب بھی اس کی مذمت کرتے ہیں اور مستقبل میں بھی مذمت ہی کی جائے گی۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ توہینِ مذہب کے قانون کے غلط استعمال روکنا ہوگا۔، اس قانون کو بطور ہتھیار استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں