چارلی ایبڈو حملہ آور سے منسلک ہونے کے الزام میں اٹلی میں پاکستانی شہری گرفتار

روم (ڈیلی اردو/بی بی سی) اٹلی میں انسداد دہشت گردی پولیس اور یورپین یونین کے ادارے یوروپول نے دو سال قبل فرانس میں متنازع خاکے شائع کرنے والے جریدے چارلی ایبڈو کے دفاتر پر ہونے والے حملوں سے منسلک ہونے کے شبہے میں چند پاکستانی شہریوں کو گرفتار کیا ہے۔

واضح رہے کہ 2020 میں پاکستانی شہریت رکھنے والے 18 سالہ ظہیر حسن محمود نے چھریوں کی مدد سے دو افراد کو زخمی کر دیا تھا۔ انھوں نے اپنے اقدامات کو میگزین کی جانب سے پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی دوبارہ اشاعت کا نتیجہ قرار دیا تھا۔

اس سے پانچ سال قبل انہی خاکوں کی اشاعت کی وجہ سے 7 جنوری 2015 کو دو فرانسیسی مسلمانوں نے پیرس میں چارلی ایبڈو کے دفتر پر فائرنگ کی تھی۔ اس حملے میں میگزین کی مدیر اور چار معروف کارٹونسٹ سمیت بارہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق منگل کو ہونے والی کارروائی کے دوران اٹلی اور دیگر ممالک سے چند پاکستانی افراد کو حراست میں لیا گیا جن پر الزام ہے کہ ان کا ظہیر حسن محمود سے براہ راست تعلق تھا اور وہ حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

حکام نے گرفتار ہونے والے افراد کی تعداد اب تک نہیں بتائی۔

مہینوں کی تفتیش کا نتیجہ

یوروپل کے یورپین انسداد دہشت گردی سینٹر نے فرانس اور سپین سمیت اٹلی میں اس آپریشن میں حصہ لیا۔ اٹلی میں جینوا کی پولیس نے اے ایف پی کو بتایا کہ بین الاقوامی دہشت گردی کے الزامات پر ایک جج نے 14 گرفتاری کے وارنٹس پر دستخط کیے تھے۔

جینوا کے مقامی اخبار سیکولو کے مطابق ’اٹلی میں کم از کم آٹھ گرفتار ہونے والے افراد ایک اسلامی شدت پسند نیٹ ورک کا حصہ تھے جو حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔‘

اے ایف پی کے مطابق اس پورے معاملے کی تفتیش کا آغاز جینوا میں ہی ہوا تھا جہاں ایک ملزم رہائش پذیر تھا۔ جینوا کے مقامی اخبار سیکولو کے مطابق ’مہینوں تک ملزم کا پیچھا کیا گیا اور وائر ٹیپس کا استعمال کیا گیا جس کے دوران حاصل ہونے والا ڈیٹا دیگر ممالک کی پولیس کو بھی بھجوایا گیا۔ اس تفتیش کے نتیجے میں اٹلی کے دیگر علاقوں سمیت فرانس اور سپین میں بھی اسی گینگ کے دیگر ممبران کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔‘

اخبار کے مطابق منگل کو گرفتار ہونے والے افراد سے تفتیش کا سلسلہ جاری ہے اور اس بات کا تعین بھی کیا جا رہا ہے کہ آیا اس گینگ کے مذید ممبران ہیں یا نہیں۔

چارلی ایبڈو کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟

چارلی ایبڈو فرانس کا ایک ہفتہ وار جریدہ ہے جس میں طنزیہ انداز میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی جاتی ہے۔ کیتھولک، یہودیت اور اسلام کے بعض پہلوؤں کا تمسخر اڑانے کی وجہ سے یہ لمبے عرصے سے تنازعات کو ہوا دیتا رہا ہے۔

لیکن پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کرنے کے بعد سے اس کے صحافیوں اور عملے کو دھمکیاں ملنا شروع ہو گئی تھیں اور سنہ 2011 میں اس پر پیٹرول بم بھی پھینکے گئے تھے۔

اس کے مدیر نے خاکوں کی اشاعت کا آزادی رائے کی ایک علامت کے طور پر دفاع کیا تھا۔ انھوں نے سنہ 2012 میں امریکی خبر رساں ادارے کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’وہ فرانس کے قوانین کے تحت رہتے ہیں نہ کہ قرآن کے قوانین کے تحت۔‘

اس واقعے کے بعد دنیا بھر میں خاکوں کی اشاعات پر شدید رد عمل سامنے آیا تھا۔

مسلمانوں کے عقائد کے مطابق پیغمبرِ اسلام کا کسی قسم کا عکس یا تصویر ممنوع ہے اور اس کو انتہائی قابل مذمت سمجھا جاتا ہے۔

سنہ 2015 میں کیا ہوا تھا؟

جنوری 2015 کی سات تاریخ کو دو بھائیوں سعد اور شریف کواچی نے چارلی ایبڈو کے دفتر میں گھس کر فائرنگ کر دی تھی جس میں اس اخبار کے ایڈیٹر سٹیفن شربونیئر، چار کارٹونسٹ، دو کالم نگار، ایک کاپی ایڈیٹر اور ایک مہمان جو اس وقت وہاں موجود تھا، ہلاک ہو گئے تھے۔ اس ایڈیٹر کا محافظ اور ایک پولیس والا بھی فائرنگ کے دوران مارے گئے تھے۔

پولیس نے جب حملہ آوروں کی تلاش شروع کی جو کہ آخر کار مارے گئے، تو پیرس شہر کے مشرقی حصے میں ایک اور واقع پیش آیا۔ ایمدی کولابلی نے جو کواچی برادران کا ایک ساتھی تھا، ایک پولیس خاتون اہلکار کو ہلاک کر کے کئی لوگوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اس نے نو جنوری کو یہودیوں کی ایک سپر مارکیٹ میں چار یہودیوں کو قتل کر دیا اور خود پولیس سے فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہو گیا۔

ایک ویڈیو ریکارڈنگ میں احمدی نے کہا تھا کہ اس نے یہ حملہ دولت اسلامیہ کے نام پر کیا ہے۔

2020 میں حملہ

فرانس میں 2020 میں چارلی ہیبڈو نے ایک بار پھر متنازع خاکوں کو شائع کیا جس کے بعد ایک پاکستانی شہریت رکھنے والے نوجوان نے چارلی ہیبڈو کے سابق دفتر کے باہر چند افراد پر حملہ کیا۔

یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب 2015 میں چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملہ کرنے والے دو ملزمان کی سہولت کاری کے الزام میں 14 افراد پر مقدمہ چل رہا تھا۔ اس واقعے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اس واقعے کے بعد چارلی ایبڈو کے دفتر کو ایک خفیہ مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا۔

2020 میں مرکزی ملزم کا نام ظاہر نہیں کیا گیا لیکن اس وقت فرانس کے وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ وہ پاکستان سے تین سال قبل ‘ایک تنہا لڑکے کے طور پر’ فرانس آئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں