چارسدہ: شبقدر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے صحافی افتخار احمد ہلاک

چارسدہ (نمائندہ ڈیلی اردو/ٹی این این) صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کی تحصیل شبقدر میں دو جولائی کی رات مقامی صحافی افتخار احمد کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔

https://twitter.com/ShabbirTuri/status/1543298851511144448?t=bQkN5PTrjb29ENgyTwKzQQ&s=19

ایکسپریس نیوز کے مطابق چارسدہ کے علاقے شب قدر میں نامعلوم افراد نے افتخار احمد پر قاتلانہ حملہ کیا جس میں وہ ہلاک ہوگئے۔

پولیس نے جائے وقوع پر پہنچنے کے بعد مقتول کی لاش کو ضابطے کی کارروائی کے لیے ٹی ایچ کیو شبقدر ہسپتال منتقل کیا۔

صحافی افتخار احمد کے قتل کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی، شبقدر پولیس کے مطابق واقعے کی رپورٹ مقتول کے بھائی حضرت بلال نے درج کی اور کہا کہ ان کا کسی کے ساتھ ذاتی عناد نہیں ہے۔

https://twitter.com/RasoolDawar/status/1543321185223671808?t=l9ixu_uWxGZ3Va_o_0aGfw&s=19

دوسری جانب آئی جی خیبرپختونخوا نے واقعے کا نوٹس لے لیا۔ آئی جی معظم جاہ انصاری کی ہدایت پر ڈی پی او چارسدہ سہیل خالد جائے وقوع پر پہنچے اور ڈی پی او کی نگرانی میں مقتول کے کا پوسٹ مارٹم کروانے کے احکامات جاری کیے۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ واقعے کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اور شواہد کا جائزہ لینے کے بعد صورتحال واضح ہو جائے گی۔

دریں اثنا آئی جی خیبرپختونخوا کا شبقدر میں ایکسپریس نیوز کے نمائندے کے قتل میں ملوث قاتلوں کی فوری گرفتاری کا حکم جاری کیا۔

وزیراعلٰی خیبر پختونخوا نے صحافی افتخار احمد کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں متاثرہ خاندان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور پولیس کو حکم دیا ہے کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو گرفتار کر کے ضروری کاروائی عمل میں لائی جائے۔

اس سے قبل بھی ضلع چارسدہ میں صحافیوں کے نامعلوم افراد کی جانب سے قتل کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ شبقدر میں 17 جنوری 2012 کو مکرم خان عاطف اور چارسدہ میں 30 اکتوبر 2018 کو احسان شیرپاؤ کو قتل کیا گیا تھا جن کے ملزمان کو تاحال کوئی سزا نہیں ملی ہے۔

خیبر پختونخوا میں صحافیوں کی اظہار رائے کی آزادی پر کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کے کوآرڈینیٹر و سینئر صحافی گوہر علی خان نے صحافی افتخار احمد کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پولیس سے ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔

ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں سینئر صحافی گوہر علی خان نے بتایا کہ گزشتہ 72 گھنٹوں میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں حیران کُن طور پر اضافہ ہوا ہے جن میں صوبہ سندھ کے خیرپور کے صحافی اشتیاق سوڈھڑو، ایبٹ آباد میں سینئر صحافی سلطان محمود ڈوگر پر قاتلانہ حملہ، اسلام آباد میں تجزیہ کار آیاز امیر پر تشدد اور اب افتخار احمد کا قتل شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ سال 22-2021 کے فریڈم نیٹ ورک کی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اب اسلام آباد جیسا پوش علاقہ بھی صحافیوں کیلئے خطرناک بن چکا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کی سیکورٹی بھی صحافیوں کیلئے ناکام ہو چکی ہے۔

گوہر علی نے بتایا “ان سب واقعات سے مجھے لگ رہا ہے کہ پاکستان صحافیوں کے لئے ایک قبرستان کی شکل اختیار کر چکا ہے جہاں پر صحافیوں کیلئے کوئی سیکورٹی کا انتظام ہے اور نہ ان کے تشدد میں ملوث ملزمان کو سزا ملی ہے اور سزا نہ ملنے کا نقصان یہ ہے کہ جب بھی مخالفین چاہیں صحافی کو ٹارگٹ کر سکتے ہیں۔”

سینئر صحافی گوہر علی نے صحافیوں کے تحفظ پر بات کرتے ہوئے کہا ہر شہری کو تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو بھی اپنا تحفظ یقینی بنانا ہو گا اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی رپورٹنگ میں توازن پیدا کریں، انہیں سیکورٹی کے حوالے سے تربیت دی جائے۔

غیرسرکاری تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2002 سے اب تک 130 صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے جن میں ملوث کسی بھی ملزم کو سزا نہیں ملی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں