جاپان کے سابق وزیرِاعظم شنزوآبے قاتلانہ حملے میں ہلاک

ٹوکیو (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے/اے پی) جاپان کے سابق وزیرِ اعظم شنزوآبے انتخابی مہم کے دوران ہونے والے قاتلانہ حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ انہیں تشویش ناک حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ڈاکٹرز نےبعدازاں اُن کی موت کی تصدیق کر دی۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق شنزو آبے کو جمعے کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ انتخابی مہم کے سلسلے میں نارا شہر میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔

جاپان میں اتوار کو پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کی 245 میں سے 124 نشستوں پر انتخابات ہو رہے ہیں جنہیں موجودہ وزیرِ اعظم فومیو کیشیدا کے سیاسی مستقبل کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ شنزو آبے کی ہلاکت کے باوجود یہ انتخابات اتوار کو ہی ہوں گے۔

حملے کے بعد پولیس نے ایک مشکوک شخص کو بھی جائے وقوعہ سے حراست میں لے کر اسلحہ برآمد کر لیا ہے۔

ایک عینی شاہد خاتون نے نشریاتی ادارے ‘این ایچ کے’ کو بتایا کہ شنزو آبےخطاب کر رہے تھے کہ اس دوران ایک شخص ان کے پیچھے سے نمودار ہوا۔

https://twitter.com/JISOT1968/status/1545389960760803328?t=bRVe_9fBYDlTAJzSsJVT8Q&s=19

خاتون کے بقول پہلے اس طرح کی آواز سنائی دی جس طرح کسی کھلونے کی ہوتی ہے لیکن اس آواز سے سابق وزیرِ اعظم زمین پر نہیں گرے، جب دوسری مرتبہ آواز سنائی دی تو وہ بہت تیز تھی جس کے بعد دھواں اٹھتے ہوئے بھی دیکھا گیا تھا۔

خاتون نے مزید بتایا کہ بندوق کی دوسری آواز سنائی دینے کے بعد وہاں موجود افراد شنزو آبے کے گرد جمع ہو گئے۔ وہ اس وقت تک زمین پر گر چکے تھے۔

شنزو آبےکی حکمراں جماعت لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کے ذرائع نے جی جی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ جس وقت شنزو آبے زمین پر گرے ان کی گردن سے خون بہہ رہا تھا۔

ُپولیس نے حملہ آور کی شناخت ظاہر کر دی ہے جس کا نام ٹیٹسوا یاماگامی بتایا جا رہا ہے اور اس کی عمر 41 برس ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ وہ جاپان کی میری ٹائم سیلف ڈیفنس فورس کا سابق رکن ہے۔

جاپان کے وزیرِ اعظم فومیو کیشیدا واقعے کے بعد اپنی انتخابی مہم ادھوری چھوڑ کر واپس دارالحکومت ٹوکیو پہنچ گئے ہیں جہاں میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے شنزو آبے پر حملے کو وحشیانہ قرار دیا اور کہا کہ سابق وزیرِ اعظم پر حملہ ناقابلِ معافی جرم ہے۔

مقامی فائر ڈپارٹمنٹ کے افسر ماکوتو موریموتو کے مطابق سابق وزیرِ اعظم کو جس وقت زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا جا رہا تھا اس وقت وہ سانس نہیں لے رہے تھے اور ان کا دل بھی نہیں دھڑک رہا تھا۔

امریکہ کی مذمت

امریکی صدر جو بائیدن، برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن اور امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن سمیت دنیا بھر سے لیڈروں نے شنزو آبے کے انتقال پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے۔

صدر بائیڈن نے ایک بیان میں کہا،” میں اس خبر سے ششدر، انتہائی برہم اور گہرے صدمے میں ہوں کہ میرے دوست، جاپان کے سابق وزیرِ اعظم ایک انتخابی مہم میں گولی لگنے سے انتقال کرگئے۔ یہ جاپان اور ہم سب کے لیے جو ان سے واقف تھے، ایک المیہ ہے۔”

وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے شنز و آبے کی ہلاکت پر جاری کیے گئے بیان میں کہا کہ “ہمیں سابق وزیرِ اعظم کی وحشیانہ حملے میں ہلاکت پر صدمہ پہنچا ہے۔ ہم صورتِ حال کا جائزہ لے رہے ہیں اور ہماری تمام تر ہمدردیاں شنزوآبے کے اہلِ خانہ اور جاپانی عوام کے ساتھ ہیں۔”

جاپان میں آتشیں اسلحے کا استعمال موضوع بحث

سابق جاپانی وزیرِ اعظم کی حملے میں ہلاکت نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جہاں آتشیں اسلحے کا حصول تقریباً ناممکن ہے اور جن افراد کو اسلحہ لائسنس دیے جاتے ہیں، اُنہیں کڑے سیکیورٹی مراحل اور ٹیسٹس سے گزرنا پڑتا ہے۔

شنزو آبے سے قبل جاپان میں آخری سیاسی قتل 2007 میں ہوا تھا جب ناگاساکی کے میئر کو یاکوزا نامی گینگسٹر نے ہلاک کر دیا تھا۔سن 1960 میں جاپان کی سوشلسٹ پارٹی کے ایک لیڈر کو ایک دائیں بازو کے حملہ آور نے تلوار کے وار کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

شنزوآبےکی ہلاکت کے بعد جاپان میں انتخابی مہم کے دوران ریلیوں کی سیکیورٹی بڑھانے پر غور شروع ہو گیا، جہاں دنیا کے دیگر ملکوں کے برعکس عوام کے لیے رسائی انتہائی آسان ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق جاپان کے کلچر میں انتخابی مہم کے دوران عام عوام کا سیاست دانوں کے قریب جانا اور ان کے ساتھ گھلنا ملنا عام سی بات ہے۔ لیکن جمعے کو جو کچھ ہوا اس کے بعد اب یہ صورتِ حال تبدیل ہو سکتی ہے۔

واضح رہے کہ شنزوآبے جاپان کی تاریخ میں سب سے طویل مدت تک وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر رہنے والے سیاست دان تھے۔ پہلی مرتبہ انہوں نے 2006 میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا اور ایک سال تک اس عہدے پر رہے جس کے بعد وہ 2012 سے 2020 تک اس منصب پر فائز رہے۔

سال 2020 میں کرونا وائرس کی وبا کے دوران اس سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر شنزوآبےتنقید کی زد میں تھے اور ان کی مقبولیت کے گراف میں بھی کمی واقع ہوئی تھی۔

وہ آنتوں کے ورم کے مرض میں بھی مبتلا تھے اور ان کی طبیعت میں اچانک خرابی کے بعد کابینہ میں شامل حکام اور حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے کہا تھا کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے وزیرِ اعظم شنزو آبے کی طبیعت خراب ہے اور انہیں آرام کی ضرورت ہے۔

بعدازاں 28 اگست 2020 کو شنزو آبےنے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں