بلوچستان: کوئٹہ میں قرآن کی بے حرمتی، اقلیتی مذہبی مقامات کی سکیورٹی ہائی الرٹ

کوئٹہ (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت میں مسلمانوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کا یہ واقعہ نواں کلی میں پیش آیا۔ پولیس کے مطابق نامعلوم افراد نے ایک قبرستان میں قرآنی نسخوں کو نذر آتش کیا۔ مشتعل مظاہرین کا کہنا تھا کہ اگر اس جرم میں ملوث عناصر کو فوری طور پر گرفتار نہ کیا گیا توحالات کی ذمہ دار حکومت ہو گی۔

کوئٹہ میں تعینات سینیئر سکیورٹی اہلکار محمد حنیف نے بتایا کہ قرآن کی اس بے حرمتی میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”یہ واقعہ یہاں ایک نواحی علاقے میں پیش آیا۔ نواں کلی میں ایک قبرستان ہے، جہاں قرآن کے چند نسخوں کی بے حرمتی کی گئی۔ لگتا ہے کہ کچھ عناصر نے یہ حرکت دانستہ کی۔ قبرستان کے احاطے میں قرآنی نسخے نذر آتش کیے جانے کے اس واقعے کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے۔ اس واقعے میں ملوث ملزمان کی اب تک شناخت نہیں ہو سکی۔‘‘

محمد حینف کا کہنا تھا کہ قرآن کی بے حرمتی کا یہ واقعہ بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے جاری حکومتی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا،”نواں کلی میں اقلیتی مسیحی برادری کے کئی چرچ ہیں۔ مسیحی برادری کے باشندوں کی کثیر تعداد نواں کلی میں رہتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس واقعے میں ملوث ملزمان نے مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہو۔ پولیس نے دستیاب گواہان کے بیانات کی روشنی میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔ اولین کوشش یہی ہے کہ اشتعال مزید نہ پھیلے کیونکہ یوں حالات زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔‘‘

قبرستان میں قرآن کو نذرآتش کرنے کے واقعے کے خلاف کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں شہریوں نے احتجاجی مظاہرے کیے۔ اس واقعے کا مقدمہ جامع مسجد لیبر کالونی کے پیش امام مولانا زین اللہ کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ ایف آئی آر میں عینی شاہدین کے بیانات کی روشنی میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث ملزمان کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی۔

جمعیت علمائے اسلام کے مقامی رہنما مفتی محب اللہ کے مطابق اس جرم میں ملوث عناصر کی گرفتاری کے بغیر صورت حال میں واضح بہتری نہیں لائی جا سکتی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”پاکستان میں اس طرح کے واقعات ملک کے دیگر حصوں میں بھی رونما ہو چکے ہیں۔ ایسے واقعات کے ذریعے امن دشمن عناصر اپنے عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں۔ ایک مسلمان قرآن کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا۔ تاہم اس معاملے میں کسی بھی انتہا پسندانہ ردعمل کو روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جو عناصر اس واقعے میں ملوث ہیں، ان کو فی الفور گرفتار کیا جائے تاکہ حالات مزید خراب نہ ہوں۔‘‘

مفتی محب اللہ کا کہنا تھا کہ اس واقعے پر صوبے بھر میں جو شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے، اسے نظر انداز کرنا غلط ہو گا۔ انہوں نے کہا، ”بلوچستان میں امن دشمن قوتیں ہمیشہ سے مذہبی روا داری کے خلاف کوششیں کرتی رہی ہیں۔ کسی بھی مذہب کا پیروکار کسی دوسرے مذہب کے افراد کے جذبات سے نہیں کھیل سکتا۔ جو بھی اس جرم میں ملوث ہے، اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔‘‘

کوئٹہ میں آج مختلف مذہبی رہنماؤں نے ایک مشترکہ اجلاس بھی طلب کیا، جس میں اس واقعے کے حوالے سے صورت حال کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

نواں کلی میں پیش آنے والے اس واقعے کے خلاف احتجاج میں شریک پچاس سالہ زاہد بلوچ کے مطابق توہین قرآن کے واقعے میں ملوث عناصر کی شناخت کے معاملے میں تاخیر کی جا رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”ماخان نامی قبرستان میں چاروں طرف سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں۔ پولیس نے تمام کیمروں کی فوٹیج حاصل کر لی ہے، جس کے ذریعے ملزمان کی شناخت مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ تو پھر اب تک ملزمان کیوں گرفتار نہیں ہو سکے۔‘‘

کوئٹہ میں احتجاج میں شریک اس شہری کا کہنا تھا کہ کوئٹہ کے ساتھ ساتھ نوشکی، مستونگ، پشین اور دیگر شہروں میں بھی عوام اس واقعے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”ایک نہیں کئی قرآن نذر آتش کیے گئے ہیں۔ یہ کوئی حادثہ تو ہو نہیں سکتا۔‘‘

رواں سال 15 اپریل کو پولیس نے بلوچستان میں ضلع لورالائی کے علاقے پٹھان کوٹ میں ایک شخص کو توہین قرآن کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ قرآن کے اوراق ایک گندے نالے میں بہانے کی کوشش کر رہا تھا۔

توہین مذہب سے متعلق پاکستانی قانون کی دفعہ 295 کے تحت کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کی توہین کی سزا دو سال تک قید یا جرمانہ جبکہ کسی بھی شہری کے مذہبی جذبات اور عقائد کی توہین کی سزا دس سال تک قید اور جرمانہ ہو سکتی ہے۔ اس قانون کے آرٹیکل 295 بی کے تحت توہین قرآن کی سزا عمر قید رکھی گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں