بلوچستان: بی ایل اے کے ہاتھوں مغوی لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا ہلاک

کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان میں عسکری ذرائع نے صوبہ بلوچستان کے ضلع زیارت سے اغوا ہونے والے ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کوئٹہ کے افسر لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔

اطلاعات کے مطابق لئیق مرزا کو ان کے ایک ساتھی سمیت منگل کی شب زیارت اور کوئٹہ کے درمیان واقع ورچوم کے علاقے سے اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ سفر کر رہے تھے۔

شدت پسند بلوچ تنظیم بی ایل اے نے جمعرات کی صبح ایک بیان میں لیفٹیننٹ کرنل لئیق کے اغوا کی ذمہ داری قبول کی تھی اور کہا تھا کہ فوجی افسر ان کی تحویل میں ہیں جبکہ اس بارے میں تفصیلی بیان بعد میں جاری کیا جائے گا۔

تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ کرنل لئیق کی ہلاکت کیسے ہوئی۔

جمعرات کی شب فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق 12 اور 13 جولائی کی رات لیفٹیننٹ کرنل لئیق مرزا (جو ڈی ایچ اے کوئٹہ میں تعینات تھے) اور ان کے کزن عمر کو 10 سے 12 دہشت گردوں کے ایک گروپ نے کوئٹہ واپسی کے راستے میں زیارت کے قریب سے اغوا کیا تھا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ’یہ اطلاع موصول ہوتے ہی، آرمی کوئیک ری ایکشن فورسز کو فی الفور فرار ہوتے ہوئے دہشت گردوں کے تعاقب میں روانہ کیا گیا۔ سکیورٹی فورسز اور ایس ایس جی کمانڈوز نے ہیلی کاپٹرز کی مدد سے سرچ آپریشن شروع کیا۔ نتیجتاً سکیورٹی فورسز کی ایک ٹیم نے چھ سے آٹھ دہشت گردوں کو نزدیک واقع پہاڑوں میں ایک نالے میں فرار ہوتے دیکھا۔ اپنے آپ کو سکیورٹی فورسز کے گھیرے میں دیکھ کر دہشت گردوں نے لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا کو شہید کر دیا اور فرار ہونے کی کوشش کی۔‘

آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے دو دہشت گرد ہلاک ہوئے جبکہ ان کے قبضے سے دھماکہ خیز مواد، آئی ای ڈیز برآمد ہوئیں۔

پریس ریلیز کے مطابق اس کارروائی کے دوران باقی ماندہ دہشت گرد اغوا ہونے والے مسٹر عمر کو ساتھ لے کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق خراب موسم کے باوجود معصوم سویلین شہری (عمر) کی بازیابی اور اس جرم میں ملوث عناصر کی گرفتاری کے لیے سکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے جاری بیان میں مغوی افسر کی ہلاکت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ آرمی افسر کے اغوا اور انھیں ہلاک کرنے کا مقصد دہشت اور وحشت کا ماحول پیدا کرنا ہے۔

اغوا کی واردات کہاں پیش آئی؟

ڈائریکٹوریٹ آف پبلک ریلیشنز حکومت بلوچستان کی جانب سے وزیر اعلیٰ بلوچستان اور مشیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کے واقعے کے بعد جاری بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اغوا کا یہ واقعہ ضلع زیارت کے علاقے ورچوم میں پیش آیا۔

بعض اطلاعات کے مطابق منگل کی شب نو بجے مسلح افراد زیارت اور کوئٹہ کے درمیان سفر کرنے والی گاڑیوں کو روک رہے تھے۔ انھی میں لیفٹیننٹ کرنل لئیق اور ان کی فیملی کی گاڑی بھی شامل تھی۔

ان کی گاڑی کو روکنے کے بعد ڈی ایچ اے کے افسر کو مسلح افراد اپنے ساتھ لے گئے جبکہ ان کے خاندان کے افراد کو چھوڑ دیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق ملزمان انھیں اس راستے سے نامعلوم مقام کی جانب لے گئے جو کہ مانگی ڈیم کی جانب جاتا ہے۔

بعض اطلاعات کے مطابق منگل کی شب نو بجے مسلح افراد زیارت اور کوئٹہ کے درمیان سفر کرنے والی گاڑیوں کو روک رہے تھے۔ انھی میں لیفٹیننٹ کرنل لئیق اور ان کی فیملی کی گاڑی بھی شامل تھی۔

ان کی گاڑی کو روکنے کے بعد ڈی ایچ اے کے افسر کو مسلح افراد اپنے ساتھ لے گئے جبکہ ان کے خاندان کے افراد کو چھوڑ دیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق ملزمان انھیں اس راستے سے نامعلوم مقام کی جانب لے گئے جو کہ مانگی ڈیم کی جانب جاتا ہے۔

اس واقعے کے بعد فرنٹیئر کور اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچ گئے جنھوں نے مغوی کے خاندان کو زیارت پہنچانے کے انتظامات کیے اور علاقے میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کر دیا۔

جب حکومت بلوچستان کی ایک اعلیٰ شخصیت سے اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ڈی ایچ اے کے افسر سمیت دو افراد کو اغوا کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اغوا ہونے والے دوسرے شخص ڈی ایچ اے افسر کے ساتھی تھے جو ان کے ساتھ ہی سفر کر رہے تھے۔ اغوا ہونے والے دوسرے فرد کی شناخت کے حوالے سے تاحال سرکاری حکام کی جانب سے کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔

بیان کے مطابق وزیر اعلیٰ نے محکمہ داخلہ اور ضلعی انتظامیہ سے واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے اور سیاحوں کی باحفاظت بازیابی یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔

وزیراعلیٰ نے زیارت سمیت بلوچستان کے تمام سیاحتی مقامات پر حفاظتی انتظامات مزید مؤثر بنانے کی ہدایت بھی کی ہے۔

مشیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ و قبائلی امور بلوچستان ہاشم غلزئی سے ملاقات میں کہا ہے کہ معاملے کے حل تک انتظامیہ کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔

مشیر داخلہ نے ایک بیان میں اس واقعے کو صوبے میں امن و امان خراب کرنے کی کوشش قررا دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات باعث تشویش ہیں لیکن بہت جلد اس معاملے کو حل کیا جائے گا۔

انھوں نے بتایا کہ اغوا کاروں کو گرفتار کرنے کے لیے آپریشن جاری ہے۔

زیارت کہاں واقع ہے؟

زیارت بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 150 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع ہے۔ زیارت کا شمار بلوچستان کے سرد ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں دنیا میں صنوبر کے قدیم جنگلات میں سے ایک بڑا جنگل بھی واقع ہے۔

اہم سیاحتی مقام ہونے کے باعث لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد عید اور دیگر تعطیلات میں سیر و سیاحت کے لیے اس علاقے کا رخ کرتی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ عمومی طور پر زیارت کا شمار بلوچستان کے نسبتاً پرامن علاقوں میں کیا جاتا ہے لیکن ماضی میں یہاں چند پرتشدد واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی ریزیڈینسی پر حملے کا واقعہ بھی شامل ہے۔

جون 2013 میں اس ریزیڈینسی پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔

زیارت سے متصل ضلع ہرنائی میں بدامنی کے کئی واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں