کرنل لئیق ریکوری آپریشن: زیارت میں ہلاک ہونے والے بلوچ کون ہیں؟

کوئٹہ + اسلام آباد (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے پی/ڈی پی اے/روئٹرز/بی بی سی) صوبہ بلوچستان کے ضلع زیارت میں لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا کے اغوا اور قتل کے بعد آپریشن کے نتیجے میں 9 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی لیکن سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ سکیورٹی آپریشن میں ہلاک ہونے والے یہ افراد کون ہیں؟

بلوچستان کے متعدد سماجی کارکنان نے الزام عائد کیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر وہ افراد شامل ہیں،جو پہلے ہی”جبری گمشدگی کے نتیجے میں زیر حراست‘‘ تھے۔ یہ بھی الزام لگایا جا رہا ہے کہ یہ ”ریکوری آپریشن جعلی‘‘ ہے۔

12 جولائی کو بلوچستان کے ضلع زیارت سے کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے اغوا ہونے والے پاکستانی فوج کے لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا اور ان کے کزن عمر جاوید کی لاش ملنے کے بعد عسکری اداروں کی جانب سے اس علاقے میں آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں اب تک نو افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔

کرنل لیئیق کا قتل کیوں کیا گیا؟

پاکستان حکومت بی ایل اے کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتی ہے۔ بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ کی جانب سے ٹویٹر پر اس قتل کی ذمہ داری کا اعتراف کیا گیا ہے اور ساتھ ہی اس ترجمان نے اس ٹارگٹ کلنگ کی وجوہات بھی لکھیں۔

اس واقعے کے بعد ہونے والے فوجی آپریشن میں اب تک نو ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔تاہم ان ہلاکتوں کے بعد ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کئی بلوچ سماجی کارکنان کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس آپریشن کے نتیجے میں مارے جانے والے لوگ وہ ہیں، جو کئی برسوں سے سکیورٹی فورسز کی جانب سے جبری گمشدگی کا شکار تھے۔ ٹویٹر پر مقامی میڈیا کے حوالے دیتے ہوئے ان افراد کی تصاویر بھی بطور ”ثبوت‘‘ لگائی گئی ہیں اور ان کی مبینہ جبری گمشدگی کی تفصیلات بھی جاری کی گئی ہیں۔ اس واقعے کے بعد ٹویٹر پر ‘اسٹاپ بلوچ جینوسائیڈّ‘ کا ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کر رہا ہے۔

متضاد دعوے

بلوچستان کے مشیر برائے داخلہ و قبائلی امور میر ضیاء اللہ لانگو نے بتایا کہ آپریشن میں نو افراد مارے گئے جن میں پانچ کی شناخت شمس ساتکزئی، انجینیئر ظہیر، شہزاد بلوچ، مختیار احمد بلوچ اور سالم کریم بخش کے ناموں سے ہوئی ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ جن نو افراد کی لاشوں کو کوئٹہ منتقل کیا گیا ان میں سے پانچ کو ان کے رشتے داروں نے شناخت کیا ہے۔

اگرچہ مشیر داخلہ نے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد نو بتائی لیکن بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتے داروں کے تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے دعویٰ کیا ہے کہ آپریشن کے نام پر اس مبینہ ’جعلی مقابلے‘ میں 11 لوگوں کو مارا گیا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے الزام عائد کیا ہے کہ جن نو افراد کی لاشوں کو زیارت سے کوئٹہ منتقل کیا گیا ان میں سے پانچ کی شناخت ہوئی جو کہ پہلے سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے تھے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی نے اسے ’جعلی مقابلہ‘ قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت سے تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

تاہم حکومت بلوچستان کے مشیر برائے داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے اس تاثر کو مسترد کیا ہے کہ یہ جعلی مقابلہ تھا۔

ہلاک شدگان کون تھے؟

بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتے داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان میں سے ایک لاش شمس ساتکزئی کی تھی۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ شمس ساتکزئی کو سنہ 2017ء میں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔

اُنھوں نے بتایا کہ آخری مرتبہ گمشدگی سے پہلے بھی ان کو دو مرتبہ لاپتہ کیا گیا تھا اور پھر چھوڑ دیا گیا تھا جس کے باعث ان کے رشتے داروں نے ان کا نام نہ صرف ان کی تنظیم کے پاس درج نہیں کروایا بلکہ حکومتی کمیشن میں بھی کوئی درخواست نہیں دی۔

نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ جب وہ پیر کو شمس ساتکزئی کے رشتے داروں کے ہمراہ ان کی لاش لینے ہسپتال گئے تو ان کے رشتے داروں نے اُنھیں بتایا کہ ان کی جبری گمشدگی کے خلاف اُنھوں نے کہیں اس لیے رجوع نہیں کیا کیونکہ اُنھیں یہ توقع تھی کہ پہلے کی طرح ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔

نصراللہ بلوچ کے مطابق دوسری لاش انجینیئر ظہیر بلوچ کی تھی جن کو سات اکتوبر 2021ءکو ایئرپورٹ روڈ کوئٹہ سے لاپتہ کیا گیا تھا۔

اُنھوں نے بتایا کہ ان کی گمشدگی کی ایف آئی آر ان کے رشتے داروں نے نہ صرف متعلقہ پولیس سٹیشن میں درج کروائی بلکہ ہائیکورٹ میں ان کی بازیابی کے لیے درخواست بھی لگائی جس کی آخری سماعت 27 جون 2022 کو ہوئی جبکہ اگلی سماعت 28 جولائی کے لیے مقرر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق حکومتی کمیشن میں بھی ان کے رشتے داروں نے درخواست دی تھی۔

نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ تیسری لاش شہزاد بلوچ کی تھی جن کو چار جون 2022ءکو کوئٹہ میں سریاب روڈ کے علاقے سے لاپتہ کیا گیا تھا۔

اُنھوں نے بتایا کہ ان کے رشتے داروں نے ان کا نام لاپتہ افراد کے رشتے داروں کی تنظیم کی فہرست میں شامل کروایا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ حکومتی کمیشن میں بھی درخواست دی گئی تھی۔

وی بی ایم پی کے چیئرمین نے مزید بتایا کہ مبینہ طور پر دوران حراست مارے جانے والوں میں ڈاکٹر مختار احمد بلوچ کی لاش بھی تھی جن کو 11 جون کو کوئٹہ سے مبینہ طور پر لاپتہ کیا گیا تھا جبکہ سالم بلوچ کی لاش کی شناخت بھی ہوئی ہے جن کو پنجگور سے کوئٹہ آتے ہوئے مبینہ طور پر جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔

اُنھوں نے کہا کہ باقی چار افراد کی تاحال شناخت نہیں ہوئی تاہم لوگ ان کی شناخت کے لیے آ رہے ہیں لیکن ہسپتال میں مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لاشیں خراب ہو رہی ہیں۔

لواحقین کیا کہتے ہیں؟

بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والی عظمیٰ بی بی کے بھائی انجینیئر ظہیر بلوچ ان افراد میں شامل ہیں جن کی لاش اس آپریشن کے بعد جائے وقوعہ سے برآمد ہوئی ہے۔

اُنھوں نے اپنے بھائی کے کسی مقابلے میں مارے جانے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ اکتوبر 2021ء میں جبری گمشدگی کے بعد سے وہ ریاستی اداروں کی حراست میں تھے۔

ان کی عمر 26 سال کے لگ بھگ تھی اور اُنھوں نے انجنیئرنگ یونیورسٹی خضدار سے الیکٹریکل انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی۔

عظمیٰ بی بی نے کہا کہ بھائی کی بحفاظت بازیابی کے لیے اُنھوں نے ہر در پر دستک دی لیکن وہ زندہ بازیاب تو نہیں ہوئے بلکہ 10 ماہ بعد ان کی تشدد زدہ لاش ہمیں ملی۔

اُنھوں نے کہا کہ ان کے بھائی کا تعلق کسی تنظیم سے تھا اور نہ ہی وہ زیارت میں فورسز سے مقابلے میں مارے گئے۔

عظمیٰ نے کہا کہ اگر اُن کے بھائی مقابلے میں مارے گئے تھے تو ان کے ہاتھوں پر مبینہ طور پر ہتھکڑیوں اور آنکھوں پر پٹی باندھے جانے کے نشانات کیوں تھے۔

’میرے بھائی کے ہاتھوں پر ہتھکڑیوں کے گہرے نشانات تھے۔ ان کے پیر، ہاتھ اور چہرہ بہت زیادہ سفید تھا اور یوں لگتا تھا کہ طویل عرصے سے ان کو سورج کی روشنی لگی ہی نہیں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ہمارے بھائی کا کوئی قصور نہیں تھا اور اگر حکومت اور اس کے ادارے یہ سمجھتے تھے کہ اُنھوں نے کوئی جرم کیا ہے تو ان کو اپنے قوانین کے تحت عدالتوں سے سزا دلواتے مگر ایسا سلوک نہیں کیا جاتا۔

اسی طرح ایک اور شناخت ہونے والے شخص شہزاد احمد کا تعلق بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے گیاوان سے تھا۔

ان کے بھائی عبدالحمید نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ شہزاد کی عمر 23 سال تھی اور انھوں نے کوئٹہ کے پولی ٹیکنک کالج سے سول انجنیئرنگ میں ڈپلومہ کر رکھا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ اُن کے بھائی قلات سے کوئٹہ اپنی سند لینے آئے تھے اور اُنھیں چار جون کو پولی ٹیکنک کالج کے قریب سے ہی جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔

’بھائی کی جبری گمشدگی کے بعد ان کی بازیابی کے لیے میں نے بہت کوشش کی اور مجھے یہ تسلی دی گئی تھی کہ ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔‘

عبدالحمید کے مطابق ان کے بھائی کا تعلق کسی تنظیم کے ساتھ نہیں تھا اور دعویٰ کیا کہ وہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلے میں ہلاک نہیں ہوئے۔

ڈاکٹر مختیار احمد کا تعلق کوئٹہ شہر سے تھا۔ اُنھوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے فزیوتھراپی کی تعلیم حال ہی میں مکمل کی تھی اور پریکٹس شروع کی تھی۔

ان کے ایک قریبی رشتے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا تعلق کسی سیاسی و عسکری تنظیم سے نہیں تھا۔

شناخت کیے جانے والے دو دیگر افراد شمس ساتکزئی اور سالم کے رشتے داروں سے رابطہ نہ ہونے کے باعث ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل نہیں کی جا سکیں۔

بی این پی ایم کے سربراہ سردار اختر مینگل نے وزیر اعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہےکہ زیارت میں ایک مبینہ مقابلہ ہوا اور اس مقابلے میں نو افراد مارے گئے، جس کی انویسٹیگیشن کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے اور اس کیس کی انکوائری جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے زیر نگرانی مکمل کی جائے۔

حکومت کی جانب سے تمام تر الزامات مسترد

بلوچستان کے ضلع زیارت میں لیفٹیننٹ کرنل لئیق کے اغوا اور قتل کے بعد جاری آپریشن میں نو افراد کی ہلاکت کی تصدیق بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا لانگو کی جانب سے بھی کی گئی ہے۔ تاہم انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایسے کئی افراد خود ساختہ گمشدگی کے بعد ”دہشت گردی کے واقعات میں پہلے بھی ملوث‘‘ رہے ہیں۔

انہوں نے کراچی اسٹاک ایکسچینج اور پی سی گوادر حملوں کی مثال دیتے ہوئے الزام عائد کیا، ”ایسے پر تشدد واقعات ان گمشدہ افراد کی جانب سے ہوئے ہیں، جن کے لواحقین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ریاست نے انہیں جبری طور پر اٹھایا ہے تاہم حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔‘‘ دوسری جانب پاکستان کے انسانی حقوق کے کارکن ایسے حکومتی دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں۔

زیارت کی اہمیت

زیارت ایک اہم سیاحتی مقام ہے۔ یہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 150 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع ہے۔ زیارت میں صنوبر کے قدیم جنگلات میں سے ایک بڑا جنگل بھی واقع ہے۔

عمومی طور پر زیارت کا شمار بلوچستان کے نسبتاً پرامن علاقوں میں کیا جاتا ہے۔ ماضی میں یہاں چند پرتشدد واقعات پیش آ چکے ہیں۔ جون 2013ء میں زیارت ریزیڈینسی پر حملہ کر کے اسے تباہ کیا گیا، جس کی ذمہ داری بھی بی ایل اے نے قبول کی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں