دعا زہرہ کیس: سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرا کو کراچی شیلٹر ہوم منتقل کرنے کی اجازت دیدی

کراچی (ڈیلی اردو/بی بی سی) سندھ ہائی کورٹ نے جمعرات کی دوپہر دعا زہرا کیس میں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اس کیس کے تفتیشی افسر کو دعا زہرا کو شیلٹر ہوم کراچی منتقل کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

اپنے فیصلے میں سندھ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ دعا زہرا کو کراچی منتقل کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ دعا زہرا اس کیس کا مرکزی کردار ہیں اور ٹرائل کورٹ میں ان کا کیس زیر التوا ہے اس لیے کراچی میں ان کی موجودگی ضروری ہے۔ فیصلے کے مطابق بظاہر دعا زہرا اپنے شوہر سے ناخوش ہے اور ان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تاہم دوسری جانب وہ بظاہر اپنے والدین سے بھی خوفزدہ ہیں اس لیے شیلٹر ہوم میں رہنا ان کے لیے مناسب ہو گا۔

سندھ ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ دعا زہرا کے اغوا سے متعلق ٹرائل کورٹ ہی حتمی فیصلہ کرے گی۔

یاد رہے کہ اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرا کی بازیابی کی درخواست پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔۔

جمعرات کی صبح ہونے والی سماعت کے دوران سندھ پولیس نے دعا زہرا کے دعویدار شوہر ظہیر احمد کو عدالت میں پیش کیا تھا جہاں جسٹس اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔

دورانِ سماعت جسٹس اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے تھے کہ لڑکی کو ہر صورت کراچی لایا جانا چاہیے کیونکہ مبینہ جرم کراچی میں ہوا ہے تو کیس کی سماعت بھی اسی شہر میں ہونی چاہیے۔

واضح رہے کہ دعا زہرا کی بازیابی کے لیے ان کے والد مہدی کاظمی نے درخواست دائر کی تھی جس پر عدالت نے ملزم ظہیر احمد کو نوٹس جاری کیا تھا۔

دورانِ سماعت جسٹس اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے تھے کہ ’کیس اسی شہر میں زیر التوا ہے، کراچی میں بھی شیلٹر ہوم ہیں، کراچی میں بھی لڑکی کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا، کراچی کے شیلٹر ہوم میں بھی حفاظتی انتظامات ہوں گے۔‘

عدالت نے ملزم ظہیر کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ چاہتے ہیں لڑکی کو کراچی منتقل نہ کیا جائے؟ اس پر ملزم کے وکیل نے کہا کہ لڑکی کو کراچی منتقل نہیں کیا جا سکتا، لڑکی اگر کسی سے نہ ملنا چاہے تو بھی کوئی اس سے نہیں مل سکتا، عدالت بھی چاہے تو لڑکی سے ملنے کا نہیں کہہ سکتی۔

وکیل کے دلائل پر عدالت نے کہا کہ لڑکی کم عمر ثابت ہو چکی ہے، ان کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں، ہم لڑکی کی حوالگی والدین کے حوالے کرنے کا حکم نہیں دے رہے۔

دوران سماعت جسٹس محمد اقبال نے استفسار کیا تھا کہ لڑکی اس وقت دارالامان میں ہے؟ جس پر وکیل درخواست گزار نے جواب دیا کہ ’جی دعا اس وقت لاہور کے شیلٹر ہوم میں ہے۔‘

اس موقع پر ملزم ظہیر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم ظہیر کے بینک اکاؤنٹس اور شناختی کارڈ کو بلاک کر دیا گیا ہے، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کتنے اکاؤنٹس منجمد کیے گئے ہیں؟

ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ ظہیر اور ان کے بھائیوں کے چار بینک اکاؤنٹس منجمد کیے گئے ہیں جنھیں کھولا جائے، جس پر عدالت نے ملزم ظہیر کے وکیل کو ہدایت کی کہ اکاؤنٹس کھولنے کے لیے الگ سے درخواست دائر کریں۔

دورانِ سماعت سندھ حکومت کے وکلا نے بھی دعا زہرا کو کراچی منتقل کرنے کی حمایت کر دی، جس پر عدالت نے بازیابی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔

سماعت کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر کا کہنا تھا کہ ہم نے حبس بےجا کی درخواست دائر کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ دعا بازیاب ہو چکی ہیں تاہم درخواست دائر کرنے کے ابھی کچھ حقائق سامنے آنا باقی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’دعا زہرا بچی ہیں، اچھا ہوتا کہ کراچی کے دارالامان میں دعا کو لایا جاتا۔‘

جبران ناصر کا کہنا تھا کہ بچی نے خود درخواست دی کہ وہ دارالامان میں رہنا چاہتی ہیں۔ وہ تن تنہا ہیں، ان کو ویلفیئر کی ضرورت ہے جس میں کھانا پینا، کپڑے، صحت، دوائی وغیرہ شامل ہیں۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ دعا زہرہ کو کراچی کے کسی چائلڈ پروٹیکشن کے ادارے میں رکھا جائے۔

یاد رہے کہ منگل کے روز کراچی کی ایک سیشن عدالت نے ایڈیشنل آئی جی انویسٹیگیشن کو ہدایت کی تھی کہ دعا زہرہ کے مبینہ اغوا اور کم عمری کی شادی سے متعلق کیس کی تفتیش کرنے والے پولیس اہلکار کو تبدیل کیا جائے کیونکہ موجودہ افسر ’متعصب اور جانبدار‘ ہیں۔

پولیس کو ’ایماندار اور قابل تفتیشی افسر تعینات کرنے‘ کی ہدایت

کراچی کی عدالت کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (ایسٹ) محمد محبوب اعوان نے پولیس کے تفتیشی سربراہ سے کہا تھا کہ ہائی پروفائل کیس کی تحقیقات کے لیے کوئی ایماندار اور قابل پولیس افسر تعینات کیا جائے۔

دعا زہرہ کے والد کے وکیل جبران ناصر نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم ظہیر احمد نے 16 اپریل کو ان کے مؤکل کی بیٹی کو کراچی کے گھر سے اغوا کیا تھا اور لاہور منتقل ہو گیا تھا۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ ایک میڈیکل بورڈ نے دعا زہرہ کی عمر 15 سے 16 سال کے درمیان بتائی تھی، جو 15 کے قریب ہے۔

انھوں نے بتایا تھا کہ کیس کے پہلے تفتیشی افسر انسپکٹر سعد احمد تھہیم نے دعا کی عمر 14 سال ہونے کے بارے میں نادرا کے دستاویزات اور پاسپورٹ سے مطمئن ہونے پر عدالت میں عبوری چالان جمع کرایا، جہاں انھوں نے کیس میں ٹریفکنگ ان پرسن ایکٹ 2018 اور سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کی دفعہ 3 اور 4 شامل کیں۔

ان کا مؤقف تھا کہ تفتیشی افسر تھہیم نے ظہیر، شبیر احمد، مولوی حافظ غلام مصطفی، جنھوں نے غیر قانونی طور پر ان کی کم عمری کی شادی کروائی تھی، اور ایسی شادی کے ایک عینی شاہد اصغر علی کو بھی مفرور قرار دیا اور سمجھداری سے فیصلہ کیا تھا کہ وہ نوعمر دعا کا بیان ریکارڈ نہ کریں۔

وکیل جبران ناصر نے کہا تھا کہ پہلے تفتیسی افسر نے مخلصانہ کوششوں کے بعد نکاح خواں حافظ مصطفیٰ اور گواہ اصغر علی کو گرفتار کیا، انھوں نے مزید کہا کہ انھوں نے کراچی کے جوڈیشل مجسٹریٹ کو درخواست بھی دی تھی کہ دعا کی اصل عمر معلوم کرنے کے لیے اس کے اوسیفیکیشن ٹیسٹ کا حکم دیا جائے لیکن عدالت نے درخواست مسترد کر دی۔

ایڈووکیٹ جبران ناصر نے الزام لگایا کہ موجودہ تفتیشی افسر جان بوجھ کر 9 جون کو کراچی کے متعلقہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونے میں ناکام رہے تاکہ مطلوبہ دولہے کے 10 حراست میں لیے گئے رشتہ داروں کا ریمانڈ حاصل کیا جا سکے۔

وکیل نے نشاندہی کی کہ مرکزی ملزم ہونے کے باوجود ظہیر نے آئی او شاہانی کو اپنا سیل نمبر فراہم کیا تھا، جو دعا کے مبینہ اغوا کے دوران کال ڈیٹا ریکارڈ کے ذریعے ان کے ٹھکانے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں جان بوجھ کر ناکام رہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اگرچہ میڈیکل بورڈ نے دعا کا تازہ ’عمر کا تعین کرنے والا ٹیسٹ‘ کرایا تھا، آئی او شاہانی نے جان بوجھ کر ایک تحقیقاتی رپورٹ درج کرائی جس میں پہلے سے ‘میڈیکل بورڈ کی عارضی تشخیص’ پر انحصار کرتے ہوئے کیس ک سی کلاس میں میں نمٹانے کی سفارش کی گئی۔

وکیل جبران ناصر نے مزید الزام لگایا کہ دعا کی عمر 16 سال سے کم ہے اس حقیقت کو جاننے کے باوجود، تفتیشی افسر اب تک مغوی کی بازیابی کے لیے کوئی کوشش کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ کم عمری کی شادی کے دوسرے گواہ شبیر احمد کو بھی گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔

لہٰذا عدالت سے استدعا کی گئی کہ کیس کی تحقیقات تفتیشی افسر شاہانی سے لے کر کسی ایماندار اور قابل افسر کو منتقل کی جائے جو کم سے کم سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے درجے کا افسر ہو۔

دعا زہرہ دارالامان منتقل

پرائم منسٹر سٹریٹجک ریفارمز کے سربراہ سلمان صوفی نے کہا ہے کہ دعا زہرہ کو عدالت کے حکم کے بعد سخت سکیورٹی میں دارالامان منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ ان کے مبینہ شوہر ظہیر کی تلاش جاری ہے۔

ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں سلمان صوفی کا کہنا تھا کہ ظہیر کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس انھیں تلاش کر رہی ہے۔

سلمان صوفی نے بتایا کہ حکومت سندھ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی ایک ٹیم لاہور بھیجیں جو دعا کو ان کے والدین کے پاس لے جا سکے۔

یاد رہے کہ چند دن قبل سلمان صوفی نے کہا تھا کہ سندھ پولیس کی درخواست پر پنجاب پولیس کو دعا زہرہ کیس میں ظہیر کو گرفتار کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب پولیس سے کہا ہے کہ ظہیر کا پتہ لگائیں اور اسے گرفتار کریں اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو سے کہا ہے کہ بچی کو اپنے سینٹر میں رکھیں۔‘

انھوں نے لکھا تھا کہ ’بچوں سے بدسلوکی کے معاملے پر کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔‘

سلمان صوفی کی آج کی ٹویٹ کے جواب میں دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہمیں یقین ہے کہ آپ کی نگرانی میں کسی اجنبی، میڈیا کے کسی شخص، ملزم کے اہلخانہ اور ایف آئی آر میں نامزد 33 افراد کو بچی تک رسائی نہیں ہو گی۔‘

’دعا زہرہ کو جب مبینہ طور پر اغوا کیا گیا تو اس وقت ظہیر کراچی میں موجود تھا‘

16 جولائی کو دعا زہرہ اغوا کیس کے تفتیشی افسر نے ایڈیشنل سیشن جج کے پاس جمع کرائی گئی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ کراچی سے جب دعا زہرہ کو مبینہ طور پر اغوا کیا گیا تو اس وقت ظہیر اسی شہر میں موجود تھا۔

اس سے قبل دعا زہرہ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ خود ہی کراچی سے ٹیکسی میں سوار ہو کر لاہور پہنچی تھیں جبکہ ظہیر کا کہنا تھا کہ وہ دعا کے اس اقدام سے لاعلم تھے اور لاہور پہنچ کر ہی دعا نے ان کو فون کیا تھا۔

عدالت میں جمع کرائی گئی تحریری رپورٹ میں تفتیشی افسر نے موبائل فون نمبر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ یہ ظہیر احمد کے نام پر رجسٹرڈ ہے اور واقعے والے دن اس کی لوکیشن کراچی میں ہی پائی گئی۔

پولیس نے ملزمان کے خلاف زیر دفعہ 363 اور کم عمری کی شادی کی روک تھام کے قانون کی دفعات شامل کرنے کی اجازت طلب کرلی ہے۔

اس مقدمے میں 33 ملزمان نامزد ہیں جن میں ظہیر کی والدہ نور بی بی سمیت آٹھ خواتین بھی شامل ہیں۔ تفتیشی پولیس کی رپورٹ کے مطابق دعا زہرہ کی پنجاب سے بازیابی کے لیے محکمہ سندھ سے اجازت طلب کی جا رہی ہے۔

یاد رہے کہ اس مقدمے میں نکاح خواں اور گواہ پہلے ہی گرفتار ہیں جبکہ دعا کاظمی کے والد مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر ظہیر احمد کی گرفتاری اور تفتیش کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

دعا کے والد کی جانب سے تفتیشی افسر کی تبدیلی کے لیے بھی عدالت میں درخواست دائر کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ مقامی عدالت نے قرار دیا تھا کہ نکاح رجسٹرار اور متعلقہ افراد کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ نکاح سے متعلقہ شناختی دستاویزات کی چھان بین کریں کیونکہ عمر سے متعلق محض زبانی طور پر بتانا قابل قبول نہیں۔

کراچی کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے گذشتہ ہفتے دعا زہرہ کیس میں مختصر فیصلہ سُنا کر نکاح خواں غلام مصطفیٰ اور گواہ علی اصغر کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی اور پھر بدھ کو اس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں نکاح کے لیے مطلوبہ دستاویزات اور نکاح رجسٹرار کے کردار پر بحث کی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ تمام نکاح رجسٹرار اور وہ افراد جو شادی میں بطور گواہ شرکت کرتے ہیں اُن کے لیے لازمی ہے کہ وہ تمام دستاویزات کی چھان بین کریں، زبانی طور پر عمر بتانا اس وقت تک قابل قبول نہیں جب تک بطور ثبوت کوئی دستاویزات فراہم نہیں کی جاتیں۔

عدالت کے مطابق عمر کی یہ دستاویز قومی رجسٹریشن اتھارٹی یعنی نادرا کا شناختی کارڈ، بی فارم، سکول چھوڑنے کا سرٹیفیکیٹ، یونین کونسل کا پیدائشی سرٹیفیکیٹ یا عمر کا تعین کرنے والی اتھارٹی سے جاری کردہ سرٹیفیکیٹ قابل قبول ہو سکتا ہے۔

عدالت نے دونوں ملزمان کی ضمانت کی درخواست مسترد کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا کہ نکاح خواں حافظ غلام مصطفیٰ نے دستاویزات کی تصدیق نہیں کی جبکہ نکاح کے گواہ اصغر علی کی کوئی ساکھ نہیں۔

عدالت نے کہا کہ سنگین جرم مغویہ کی نفسیات کو تباہ کر سکتا ہے، اس کے باعث مغویہ کے خاندان کو عوام کے سامنے شرمندگی کا سامنا ہوتا ہے، یہ ایک بد نما داغ ہے جس کا سامنا خاندان والوں کو کرنا پڑ سکتا ہے جو کہ سنگین جرم ہے لہذا اس قسم کا گھناؤنا جرم کسی انفرادی شخص کے خلاف نہیں ہے بلکہ پورے معاشرے کے خلاف ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل پولیس نے دعا زہرہ اغوا کیس میں پیش کیے گئے چالان میں گرفتار ملزمان غلام مصطفیٰ اور اصغر کو بے گناہ قرار دیا ہے اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ انھیں رہا کرنے کا حکم دیا جائے۔

ملزم ظہیر احمد کی حفاظتی ضمانت کی منظوری

اس سے قبل دعا زہرہ اغوا کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے دعا کے مبینہ شوہر اور ملزم ظہیر احمد کی حفاظتی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کی گرفتاری 14 جولائی تک کے لیے روک دی تھی۔

میڈیکل بورڈ کی جانب سے دعا زہرہ کی عمر کے تعین کے بعد ان کے والد نے کراچی کی مقامی عدالت سے ایک بار پھر اپنی بیٹی کی بازیابی کے لیے درخواست دی تھی جس میں سندھ پولیس کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔

ادھر مبینہ شوہر اور ملزم ظہیر احمد کی جانب سے ممکنہ گرفتاری کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا جہاں دورانِ سماعت عدالت نے سوال کیا تھا کہ ایف آئی آر کب درج ہوئی۔

عدالت کو بتایا گیا تھا کہ اغوا کا مقدمہ 16 اپریل کو درج ہوا تھا جبکہ کیس میں تفتیشی افسر کی جانب سے بیان دیا گیا کہ وہ از سر نو تفتیش کر رہے ہیں۔

دعا زہرہ کے والد کی درخواست

دعا زہرہ کے والد مہدی علی کاظمی کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ نئے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کے مطابق دعا زہرا کی عمر 16 سال سے کم ثابت ہو چکی ہے۔

درخواست گزار کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب میرج ایکٹ 2016 کے مطابق دعا اور ظہیر کی شادی غیرقانونی ہے اور عدالت دعا زہرا کو بازیاب کروانے کا حکم دے۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ دعا کو ظہیر احمد کی ’غیر قانونی حراست‘ سے بازیاب کروا کر والدین کے حوالے کیا جائے اور مغویہ کے ساتھ اگر جنسی زیادتی ثابت ہوتی ہے تو ملزم ظہیر کے خلاف کارروائی کی جائے۔دعا کے والد نے عدالت سے استدعا کی کہ دعا زہرا کو ملک سے باہر جانے سے بھی روکا جائے۔

اس سے قبل چار جولائی کو دعا زہرہ کی میڈیکل رپورٹ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں جمع کروائی گئی تھی جس کے مطابق ان کی عمر 15 اور 16 سال کے درمیان اور 15 سال کے قریب ہے۔

دعا کے والد مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر نے عدالت میں جمع کروائی گئی میڈیکل رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ میڈیکل بورڈ نے دعا کے والدین کے مؤقف کی تصدیق کی ہے اور گذشتہ میڈیکل رپورٹ کو مسترد کیا ہے جس میں دعا زہرہ کی عمر 17 سال بتائی گئی تھی۔

جبران ناصر کے مطابق ’اس طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نادرا کے دستاویزات درست ہیں اور دعا حقیقت میں 14 سال کی بچی ہے۔‘

جبران ناصر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب جب میڈیکل بورڈ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ دعا کم عمر ہے تو اس کے اغوا کے دائر مقدمے میں پولیس کو خود کارروائی کرنی چاہیے بجائے اس کے کہ عدالت انھیں حکم جاری کرے۔

یاد رہے کہ پولیس نے اپنے چالان میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ لڑکی بالغ ہے اور وہ اپنے مرضی سے گھر سے گئی ہے لہذا اغوا کا مقدمہ نہیں بنتا۔

دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر نے کہا کہ ’پولیس اگر ٹال مٹول کا رویہ برقرار رکھتی ہے تو وہ پھر عدلیہ سے رجوع کریں گے۔‘

بی بی سی کے پاس موجود میڈیکل بورڈ کی اس رپورٹ میں دس رکنی بورڈ نے اتفاق رائے سے یہ حتمی فیصلہ دیا کہ دعا زہرہ کی عمر 15 اور 16 سال کے درمیان اور پندرہ سال کے قریب ہے۔

اس ٹیم کی سربراہ ڈاؤ میڈیکل کالج کی پرنسپل ڈاکٹر صبا سہیل تھیں۔ رپورٹ کے مطابق دعا زہرہ کا تفصیلی جسمانی معائنہ کیا گیا اور ان کے دونوں ہاتھوں، دونوں کہنیوں، پیلوس، دانتوں وغیرہ کے ایکسرے کیے گئے۔

جبران ناصر نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا کہ ہمیں اپنے بچوں کو بچانے کے لیے پولیس اور عدلیہ دونوں میں بہتر طریقہ کار اور تربیت کی ضرورت ہے۔

انھوں نے مزید لکھا کہ ’ڈھائی مہینوں تک والدین کو اپنی بیٹی کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرنی پڑی جبکہ دعا خود سے بے خبر اور ناقابل تصور خطرے میں تھیں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں