کیا جرمنی دہشت گردانہ حملے روکنے میں کامیاب رہا؟

برلن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) جرمنی میں طویل عرصے سے سیاسی اور مذہبی انتہا پسندی کو جمہوریت کے لیے شدید خطرہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ ملک میں انسداد دہشت گردی کا مرکز قائم ہے جہاں خفیہ ادارے اور پولیس مسلم دہشت گردوں کے حملے روکنے کے لیے سرگرم ہیں۔

19 دسمبر 2016 کے روز جرمنی کے مشترکہ مرکز برائے انسداد دہشت گردی (GTAZ) کے لیے نہایت تاریک دن تھا۔ کرسمس سے چند روز قبل انس عامری نامی دہشت گرد نے ایک چوری شدہ ٹرک برلن کی ایک مصروف کرسمس مارکیٹ میں موجود لوگوں پر چڑھا دیا تھا۔

اس حملے کے نتیجے میں بارہ افراد ہلاک اور ساٹھ سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ حملے کے کئی متاثرین آج بھی مسلمان شدت پسندوں کے اس بھیانک حملے کے نتائج بھگت رہے ہیں۔

اس کہانی کا ایک المناک پہلو یہ بھی تھا کہ حملہ آور کافی عرصے سے پولیس کے ریڈار پر تھا۔ جرائم کی تحقیقات کی وفاقی پولیس نے اسے ‘خطرناک افراد‘ کی فہرست میں شامل کر رکھا تھا۔ اس فہرست میں ایسے افراد کو شامل کیا جاتا ہے جن کے بارے میں سکیورٹی اداروں کو شبہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت حملہ کر سکتے ہیں۔

اس واقعے سے متعلق رپورٹ تیار کرنے والے خصوصی تفتیش کار نے سکیورٹی حکام کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے سخت تنقید کی اور لکھا کہ سکیورٹی اداروں نے ‘اتنی غلطیاں کیں، جتنی غلطیاں ممکن تھیں‘۔

انسداد دہشت گردی کا نیٹ ورک

جرمنی کی وفاقی وزیر داخلہ بننے والی نینسی فیزر نے حال ہی میں خاص طور پر مسلم اتنہا پسندی پر نظر رکھنے والے اس مرکز کا دورہ کیا۔ اس مرکز میں ملک کے 40 سے زائد وفاقی اور ریاستی سکیورٹی ادارے مل کر کام کر رہے ہیں۔ سن 2021 میں وفاقی وزیر داخلہ بننے والی فیزر نے بھی مسلم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس ادارے کے کردار کو کلیدی قرار دیا۔

انسداد دہشت گردی کا یہ مرکز 2004 میں قائم کیا گیا تھا اور تب سے اب تک دہشت گردی کے 21 ممکنہ حملے روکے جا سکے ہیں۔ تاہم گیارہ واقعات میں یہ مرکز دہشت گردانہ حملے روکنے میں ناکام بھی رہا۔

برلن کی کرسمس مارکیٹ پر دہشت گردانہ حملے کے بارے میں خصوصی تفتیش کار کی رپورٹ کے بعد قدامت پسند رکن پارلیمان اسٹیفان ہاربارتھ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ”وفاقی نظام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔‘‘

مسلم انتہا پسندی کا مقابلہ

ہاربارتھ اب جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت کے سربراہ ہیں۔ اپنے نئے کردار میں بھی ہاربارتھ کو وفاقی اور ریاستی خفیہ اداروں، پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کے کام کے لیے ناگزیر سکیورٹی نظام اور قوانین کے بارے میں فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ”وفاقی حکام کو خطرناک افراد سے نمٹنے کے معاملے میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

مشترکہ مرکز برائے انسداد دہشت گردی GTAZ کوئی ادارہ نہیں ہے بلکہ سکیورٹی اداروں کی نیٹ ورکنگ اور معلومات کے قانونی تبادلے کے لیے ایک مرکز ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ وہ اسے تبدیل کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔

لیکن ماہرین قانون اس مرکز کی واضح قانونی بنیاد نہ ہونے کے باعث اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ آئینی قوانین کے ماہر ماتھیاس بیکر کہتےہیں، ”اب تک GTAZ کو کنٹرول کرنے کا ذمہ دار کوئی نہیں ہے۔‘‘ بیکر نے اس بات کی نشاندہی برلن حملے سے بھی پہلے کی تھی۔

جرائم کی تحقیقات کرنے والی وفاقی پولیس کی ویب سائٹ پر GTAZ کو ‘باہمی تعاون کا پلیٹ فارم‘ قرار دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ اس کا مقصد ‘متعلقہ اداروں کی صلاحیتوں کو یکجا‘ کرنا اور ‘موثر تعاون‘ کو ممکن بنانا ہے۔

تاہم بسا اوقات علمی طور پر ایسا ہوتا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ دہشت گرد انس عامری کے معاملے میں بھی تکلیف دہ ناکامی دیکھی گئی تھی۔

جرمن سکیورٹی فورسز پر تنقید

اولف بیورمیئر ایک وکیل اور ‘سوسائٹی فار سول لبرٹیز‘ کے چیئرپرسن ہیں۔ وہ انسداد دہشت گردی کے مرکز کو ‘جرمن سکیورٹی انفراسٹرکچر میں گمراہ کن پیش رفت‘ سمجھتے ہیں۔

بیورمیئر نے وفاقی آئینی عدالت میں باویرین آئینی تحفظ کے قانون کے خلاف شکایت درج کرا رکھی ہے۔ اس مقدمے میں GTAZ اور اس کے کردار پر بھی بحث کی جا رہی ہے۔ ان کے مشاہدات کو برلن کی کرسمس مارکیٹ پر دہشت گردانہ حملہ روکنے میں ناکامی کی وجوہات جاننے کی تشریح کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس بارے میں وہ کہتے ہیں، ”صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کی ‘اوور لیپنگ‘ خطرات روکنے کی راہ میں حائل ہیں۔ پولیس اور خفیہ اداروں کی متعدد ذمہ داریاں معلومات کے منظم پھیلاؤ کا سبب بنتی ہیں۔‘‘ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ بالکل ایسا ہے جیسے ‘بہت سے باورچی ہوں تو ہنڈیا خراب ہو جاتی ہے‘۔

وفاقی آئینی عدالت میں بھی بیورمیئر نے اپنے بیان میں کہا کہ مختلف سکیورٹی اداروں کے مابین ذمہ داریوں کی غیر واضح تقسیم ہے جس کی وجہ سے ہر ادارے کسی خطرے کا صرف ایک پہلو دیکھ پاتا ہے اور کوئی بھی ان معلومات کو یکجا کر کے خطرے کی مکمل تصویر نہیں بنا پاتا۔

سن 2016 کے حملوں کے وقت جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے بھی یہ تجویز پیش کی تھی کہ انس عامری سے نمٹنے میں کی گئی غلطیوں سے سبق سیکھ کر جرمن سکیورٹی اداروں میں زیادہ مرکزیت لائی جانا چاہیے۔ تاہم یہ واقعہ بھی جرمن وفاقی نظام پر اثر انداز نہیں ہو پایا اور معاملات ابھی بھی ویسے کے ویسے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں