چین نے حملہ کیا تو امریکی فورسز تائیوان کا دفاع کریں گی، صدر جو بائیڈن

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز) امریکی صدر کا کہنا ہے کہ امریکی فورسز تائیوان پر چینی حملے کا دفاع کریں گے، جو واشنگٹن کی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔ تاہم وائٹ ہاؤس نے وضاحت پیش کی ہے کہ چین سے متعلق امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے 18 ستمبر اتوار کے روز کہا کہ چینی حملے کی صورت میں امریکی افواج تائیوان کا دفاع کریں گی۔ انہوں نے 60 منٹ کے ایک پروگرام میں انٹرویو کے دوران یہ بات کہی۔

بائیڈن نے کیا کہا؟

انٹرویو کے دوران جب امریکی صدر سے یہ پوچھا گیا کہ اگر چین نے جزیرے پر حملہ کیا، تو کیا امریکی افواج تائیوان کا دفاع کریں گی؟ اس پر بائیڈن نے کہا کہ ”ہاں، اگر حقیقت میں، کوئی غیر معمولی حملہ ہوتا ہے تو۔”

تاہم بائیڈن نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ امریکہ ”متحدہ چین” کی پالیسی پر برقرار ہے اور تائیوان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتا ہے۔

اس انٹرویو کے بعد ہی وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے بھی وضاحت پیش کہ تائیوان کے بارے میں امریکی پالیسی میں کوئی تبدیل نہیں آئی ہے۔ امریکہ ایک طویل عرصے سے تائیوان کے مسئلے پر اپنی دفاعی حکمت عملی کے بارے میں ابہام کی پالیسی پر قائم رہا ہے اور تائیوان میں فوجی مداخلت کے بارے میں واضح طور پر کچھ بھی کہنے سے گریز کرتا رہا ہے۔

تاہم جو بائیڈن کے اس تازہ بیان اور ماضی قریب میں تقریباً اسی طرح کے ایک اور بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس خطے میں واشنگٹن کی اسٹریٹیجک پالیسی میں تبدیلی آ رہی ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا کہنا تھا، ”صدر اس سے پہلے، بشمول رواں برس کے اوائل میں ٹوکیو میں، بھی یہی بات کہہ چکے ہیں۔ انہوں نے اس کے بعد بھی یہ واضح کیا تھا کہ ہماری تائیوان پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ سچ ہے۔”

گزشتہ مئی میں جو بائیڈن سے پوچھا گیا تھا کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو کیا امریکہ اس میں عسکری طور پر ملوث ہو گا۔ اس پر انہوں نے جواب دیا تھا، ”ہاں… ہم نے یہی عزم کیا ہے۔” تاہم اس وقت وائٹ ہاؤس نے اس بیان کو بھی تیزی سے واپس لے لیا تھا اور کہا تھا کہ تائیوان کے بارے میں امریکہ کی پالیسی تبدیل نہیں آئی ہے۔

تائیوان پر بڑھتی ہوئی کشیدگی

گزشتہ ماہ امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے تائی پے کے دورے کے سبب تائیوان پر بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اس وقت چین نے پیلوسی کے دورے کے حوالے سے کہا تھا کہ امریکہ ”آگ سے کھیل رہا ہے” اور اس نے جزیرے کے آس پاس فوجی مشقیں شروع کر دی تھیں۔ چین اسے اپنا ہی علاقہ سمجھتا ہے۔

اس کے بعد فرانس کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے بھی تائیوان کا دورہ کیا۔

اس ماہ کے اوائل میں تائیوان کے وزیرخارجہ جوزف وو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا تھا کہ چین مستقبل میں اس جزیرے پر حملے کے لیے اپنی حکمت عملیوں کا انکشاف کر رہا ہے۔

دو ستمبر کو ہی امریکی محکمہ خارجہ نے تائیوان کے لیے تقریبا ًسوا ارب ڈالر کے ہتھیاروں کے ایک ایسے معاہدے کی منظوری دی تھی، جس میں طیارہ شکن اور ہوا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں اور ریڈار کی نگرانی کے نظام کی فروخت شامل تھی۔

کانگریس کے منظور کردہ ایک حالیہ قانون  میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو تائیوان کے لیے فوجی سامان فروخت کرنے کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں