سندھ سے اغوا ہونے والی ہندو لڑکی کم عمر ہے، میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع

کراچی (ڈیلی اردو/بی بی سی) سندھ کے ایک بڑے شہر سے اغوا ہونے والی ہندو لڑکی کی طبی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی گئی ہے جس کے مطابق لڑکی کم عمر ہے اور اس کی عمر 16 سے 17 برس کے درمیان ہے۔

اس رپورٹ کے بعد عدالت نے لڑکی کو سیف ہاؤس منتقل کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ مقدمے کی آئندہ سماعت چار نومبر کو ہو گی۔

حکام کے مطابق لڑکی نے اپنی طبی رپورٹ آنے کے بعد بھی اپنے والدین کے ساتھ جانے سے انکار کیا ہے۔

ویمن ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ سندھ کی ایک اہلکار کے مطابق ہندو لڑکی نے طبی معائنہ سے قبل بھی عدالت میں ہونے والے بیان میں واضح طور پر کہا تھا کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ جانا چاہتی ہیں۔ عدالت کے حکم پر والدین کے ساتھ ملاقاتیں بھی کروائی گئی ہے مگر لڑکی نے اپنے والدین کے ساتھ جانے سے انکار کیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ وہ بطور سرکاری ادارہ عدالتی احکامات کے پابند ہیں۔

واضح رہے کہ سندھ میں کمسنی کی شادیوں کی روک تھام کے قانون (2013) کے مطابق 18 برس سے کم عمر لڑکی اور لڑکے دونوں کی شادی غیر قانونی ہے۔

ان اہلکار نے بتایا کہ عموماً ایسے مقدمات میں عدالتیں کم سن شخص کو 18 برس کی عمر تک کے لیے سرکاری تحویل میں دے دیتی ہیں جہاں پر حکومت مذکورہ شخص کے تمام تر معاملات کی ذمہ دار ہونے کے علاوہ ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ دار ہوتی ہے اور پھر 18 سال کی عمر تک پہنچنے پر دوبارہ ان کو فیصلہ کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ 18 سال سے کم عمر شخص کی کسی قسم کی گواہی قابلِ قبول نہیں ہے۔

دوسری طرف پاکستان دراوڑ اتحاد کے چیئرمین شیوا کچھی کے مطابق جب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ لڑکی کم عمر ہے تو کسی بھی طریقے سے کی گئی شادی نہیں ہو سکتی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ اغوا کا کیس بنتا ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ ملزمان کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کروائیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ہم بھی آئندہ تاریخ پر عدالت سے درخواست کریں گے کہ پولیس کو حکم دیا جائے کہ وہ ملزمان کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کریں۔

اس سے قبل سندھ پولیس کے مطابق انھوں نے 12 ستمبر کو اغوا ہونے والی ہندو لڑکی کو کراچی سے بر آمد کر کے عدالت میں پیش کیا تو لڑکی نے عدالت میں بیان دیا کہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرکے نکاح کیا ہے۔

اس پر عدالت نے لڑکی کو سیف ہاؤس میں ہی رکھنے اور طبی معائنے کے ذریعے اس کی عمر کے تعین کا حکم دیا تھا۔

بر آمد ہونے والی لڑکی کی والدہ کے مطابق ان کی اپنی بیٹی سے دو ملاقاتیں ہوئی ہیں مگر ان کے مطابق وہ ان ملاقاتوں میں کچھ بھی بولنے کے بجائے ان سے لپٹ کر روتی رہیں۔

بر آمد ہونے والی لڑکی کی بہن کا کہنا تھا کہ ’ہماری بہن نے ہمیں کچھ نہیں بتایا سب دیکھ سکتے ہیں کہ وہ ڈری ہوئی ہے۔ خوفزدہ ہے۔ وہ بات نہیں کرتی صرف روتی ہے۔ میں نے اس کے آنسو پونچھے تو اس نے میرے ہاتھ پر پیار کیا اور مجھ سے لپٹ گئی۔‘

لڑکی کو چند ہفتے پہلے سندھ کے ایک بڑے شہر کے صنعتی علاقے سے اغوا کیا گیا تھا۔ اس اغوا کے خلاف اس وقت سندھ کے کئی شہروں میں احتجاج ہوئے۔

اغوا کا مقدمہ 17 ستمبر کو درج ہوا۔ درج مقدمے کے مطابق اغوا کی یہ واردات 12 ستمبر کو ہوئی تاہم مغویہ کی والدہ کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے مقدمہ تاخیر سے درج کیا۔ درج مقدمے کے مطابق بھی اغوا کا یہ مقدمہ ایڈیشنل سیشن جج کے حکم پر درج کیا گیا تھا۔

ایس ایچ او غلام حیدر کا کہنا تھا کہ پولیس کو جب واقعے کی اطلاع ملی تو اسی وقت تفتیش کا آغاز کر دیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں مقدمہ درج کرنے کے لیے ٹھوس شواہد کی ضرورت تھی۔ ابھی ہم لوگ تفتیش ہی کر رہے تھے کہ عدالت کی جانب سے مقدمہ درج کرنے کا حکم آ گیا، جس پر ہم نے فی الفور مقدمہ درج کیا۔‘

’میں چیختی رہی اور وہ بہن کو اٹھا کر لے گئے‘

اغوا کا مقدمہ لڑکی کی والدہ کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ان کی بیٹی جس کی عمر 15 سال ہے اور ان کی بڑی بیٹی جس کی عمر 20 برس ہے، دونوں ایک مل میں کام کرتی ہیں اور 12 ستمبر کو دونوں کام کے بعد واپس گھر آ رہی تھیں کہ ایک سفید رنگ کی گاڑی آئی، جس میں ایک شخص جو بلوچستان کا رہائشی ہے، نے میری چھوٹی بیٹی کو زبردستی گاڑی میں بٹھا کر اغوا کر لیا۔

درج مقدمے میں کہا گیا کہ میری بڑی بیٹی نے اس موقع پر شور شرابہ کیا مگر وہ سنسان علاقہ تھا۔ ’وہاں پر کوئی مدد دستیاب نہیں تھی، جس کے بعد میری بڑی بیٹی اکیلی گھر واپس آئی اور مجھے سارا واقعہ سنایا جس کے بعد میں پولیس سٹیشن گئی۔‘

مغویہ کی بڑی بہن کے مطابق واقعہ اتنا اچانک تھا کہ انھیں سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ ’سفید رنگ کی کار میں وہ چار لوگ تھے۔ پہلے ایک اترا، اس نے میری بہن کو دبوچا اور پھر دوسرا اس کی مدد کو آیا اور ان دونوں نے میری بہن کو اٹھا کر کار میں پھینکا اور تیزی سے نکل گئے۔‘

مغویہ کی بڑی بہن کہتی ہیں کہ اس دوران ان کی چھوٹی بہن بہت چیخ رہی تھیں اور ہاتھ پاؤں مار رہی تھیں مگر دو طاقتور مردوں کے سامنے اس کی بس نہیں چلا۔

’مجھے ان لوگوں نے کہا کہ کسی کو بتایا، شور شرابہ کیا تو گولی مار دیں گے۔میں چیخی جتنا چیخ سکتی تھی مگر وہاں پر سننے والا کوئی نہیں تھا۔ جب میں گھر پہنچی تو میری حالت غیر تھی۔ اپنی ماں کو واقعہ سنایا اور پھر پولیس کے پاس گئے۔‘

مغویہ کی بڑی بہن کے مطابق اغوا کار کئی دن سے انھیں ہراساں کر رہا تھا۔

’وہ راستے میں کھڑا ہو جاتا اور ہمیں تنگ کرتا تھا۔ ہم پر فقرے کستا تھا۔ ہم لوگوں کے ساتھ یہ معمول تھا۔ راہ سے گزرتے لوگ اکثر ہمیں غریب سمجھ کر تنگ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، جس وجہ سے زیادہ توجہ نہیں دی تھی۔‘

مغویہ کی والدہ کہتی ہیں کہ ان کی بیٹیوں کے کام سے ہی گھر کا خرچہ چلتا تھا لیکن اس واقعہ کے بعد وہ اتنی خوفزدہ ہو گئی تھیں کہ اپنی دوسری دو بیٹیوں کو بھی کام پر نہیں بھیجا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ عمر جو اس کے کھیلنے کودنے کی تھی اس عمر میں اس کو کام پر لگا دیا تھا۔ تھوڑی سی بڑی ہوئی تو یہ آفت سر پر پڑ گئی۔وہ بہت چھوٹی اور معصوم ہے۔‘

یہ پہلا واقعہ نہیں

شیوا کچھی جو پاکستان دراوڑ اتحاد کے چیئرمین اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں، بتاتے ہیں کہ اگر پولیس بروقت کارروائی کرتی تو لڑکی کو فی الفور بر آمد کیا جا سکتا تھا مگر پولیس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا جس وجہ سے ملزماں کو لڑکی کو کسی نامعلوم مقام پر پہنچانے کا موقع مل گیا۔

شیوا کچھی کہتے ہیں کہ سندھ میں ہندو لڑکیوں کے اغوا کے واقعات ہو رہے ہیں اور ان میں کچھ واقعات تو ایسے ہیں، جن میں مذہب تبدیل کر کے نکاح کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں، جن میں لڑکیوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں