بھارت کا جوہری میزائلوں اور جنگی طیاروں کو تباہ کرنے والے انٹرسیپٹر میزائل کا کامیاب تجربہ

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) بھارت نے فضا میں جوہری میزائلوں اور جنگی طیاروں کو تباہ کرنے والے ایک انٹرسیپٹر میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ یہ بیلسٹک دفاعی میزائل دفاعی تحقیق کے ادارے ڈی آر ڈی او نے تیار کیا ہے۔ یہ تجربہ اڑیسہ کے سمندر میں ایک جزیرے پر واقع میزائل تجربہ گاہ سے کیا گیا اور حکام کی جانب سے اسے ’کامیاب تجربہ‘ قرار دیا گیا ہے۔

اس میزائل کو ’اے ڈی -1‘ کا نام دیا گیا ہے۔

وزرات دفاع کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ڈی آر ڈی او نے فیز 2 کے پروگرام کے تحت اے ڈی -1 بیلسٹک میزائل دفا‏عی انٹرسیپٹر کا کامیابی کے ساتھ تجربہ کیا۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ میزائل دو مرحلوں والی سالڈ موٹر سے چلتا ہے اور اس میں صحیح ہدف تک پہنچنے کے لیے ملک میں تیار کیے گئے کنٹرول نظام، نیویگیشن اور گائڈینس کے جدید آلات لگائے گئے ہیں۔

وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اس تجربے کے بعد کہا ہے کہ ’یہ انٹرسیپٹر میزائل ایسی جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے جو بالکل نئی ہے اور یہ صلاحیت صرف چند ملکوں کے پاس ہے۔ اس سے ملک کی بیلسٹک میزائل کے دفاعی نظام کی صلاحیت مزید بہتر ہو گی۔‘

یہ میزائل زمین کے مدار کے اندر اور باہر دونوں ہی جگہ 15- 25 کلومیٹر کی اونچائی سے لے کر 80- 100 کلو میٹر کی اونچائی تک جوہری میزائلوں اور جنگی طیاروں کو تباہ کرنے کی غرض سے بنایا گیا ہے۔

بعض خبروں میں بتایا گیا ہے کہ حکومت فی الحال اس میزائل کو کسی اہم اڈے پر تنصیب کرنے کے منصوبے سے گریز کر رہی ہے۔ اس کا ایک سبب اس کی تیاری پر آنے والے بھاری اخراجات ہو سکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے اس کی ممکنہ تنصیب کے اعلان سے اس لیے بھی گریز کیا گیا ہو کہ اس کے جواب میں پاکستان مزید جوہری بم بنانے یا انڈیا کی انٹرسیپٹر میزائل کا کوئی توڑ حاصل کرنے میں کوششوں میں مصروف ہو سکتا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس کی تیاری ایک عرصے سے چل رہی تھی لیکن کچھ تو ٹیکنالوجی کی مشکلات اور دوسرے اخراجات کے سبب اس کو حتمی شکل دینے میں  تاخیر ہوئی۔‘

ڈی آر ڈی او کے فیز -1 کے پلان کے مطابق ایسے بیلسٹک میزائل بنائے جانے ہیں جو 2000 کلومیٹر کی ریینج میں دشمن میزائل کی نشاندہی کر کے اسے قریب آنے پر فضا  میں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔

لیکن فیز 2 کے تحت جس میزائل کا اب تجربہ کیا گیا ہے اس کی رینج پانچ ہزار کلومیٹر تک کی ہے۔

راہل بیدی کا کہنا ہے کہ اسے پاکستان اور چین دونوں کو ذہن میں رکھ کر بنایا گیا ہے۔ ’انڈیا دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جو دو ایسے مخالف ملکوں سے گھرا ہوا ہے جو جوہری طاقتیں ہیں۔ ظاہر ہے اس کا ہدف یہی دو ممالک (چین اور پاکستان) ہیں۔‘

راہل بیدی کہتے ہیں کہ ’میزائل ٹیکنالوجی ایک ایسی ٹیکنالوبی ہے جو کوئی بھی ملک دوسرے ملک کو نہیں دیتا۔ انڈیا نے کئی میزائل خود اپنی ٹیکنالوجی سے بنائے ہیں۔ اب اس نئے میزائل کے تجربے کے بعد خطے میں میزائلوں کی دوڑ شروع ہونا لازمی ہے۔ پاکستان اور چین بھی اپنے اپنے طریقے سے ان میزائلوں کا توڑ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔‘

یاد رہے کہ جوہری میزائلوں اور ایواکس جیسے جنگی نوعیت کے طیاروں کو فضا یا زمین کے مدار سے باہر تباہ کرنے کی ٹیکنالوجی صرف امریکہ، اسرائیل، روس اور چین جیسے ملکوں کے پاس ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ انڈیا نے ابھی حال میں روسی ساختہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے ایس-400 میزائل فوج میں شامل کیے ہیں۔

یہ جدید ترین روسی دفاعی میزائل ‌فضا میں جنگی طیارے، جاسوس جہاز، حملہ آور ڈرون اور درمیانی فاصلے کے بیلسٹک میزائلوں کی نشاندہی کر کے انھیں فضا میں ہی تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 

ڈی آر ڈی او انڈیا میں میزائل اور دفاعی ساز و سامان بنانے والا سب سے بڑا تحقیق و ترقی کا ادارہ ہے۔

پرتھوی، اگنی، ترشول، آکاش، ناگ، نربھے اور روس کے اشتراک سے تیار کیے گئے برہموس میزائل اسی ادارے نے بنائے ہیں۔ یہ سبھی میزائل اب انڈیا کی فوج میں شامل ہیں اور اس کی عسکری طاقت کا بڑا حصہ ہیں۔ ان میں سے بعض میزائل دوسرے ملکوں نے بھی خریدے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں