اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں بھارت کی صورتِ حال پر تشویش

جینیوا (ڈیلی اردو/وی او اے) اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں متعدد ممالک نے بھارت میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کا معاملہ اٹھایا اور اپیل کی کہ وہ اپنے ملک میں جنسی تشدد اور مذہبی امتیاز کے بڑھتے واقعات پر سخت مؤقف اختیار کرے اور اقوام متحدہ کے ‘ٹارچر کنونشن’ کی توثیق کرے۔

اقوامِ متحدہ کی جانب سے ہر سال تمام 193 رکن ممالک پر مشتمل ‘یونیورسل پیریاڈک ریویو ورکنگ گروپ’ کا اجلاس منعقد کیا جاتا ہے، جس میں کسی ایک ملک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ رواں برس اس اجلاس کا آغاز سات نومبر کو جینیوا میں ہوا جو 18 نومبر تک جاری رہے گا۔

اس سے قبل تین بار اپریل 2008، مئی 2010 اور مئی 2017 میں بھارت میں انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا تھا۔ حالیہ جائزے کے سلسلے میں رپورٹ 16 نومبر کو جاری کی جائے گی۔

کونسل میں امریکی سفیر مشل ٹیلر نے بھارت میں انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق انتہائی سخت قانون ‘یو اے پی اے’ کے استعمال کو کم کرنے کی سفارش کی۔

انہوں نے کہا کہ قانونی تحفظ کے باوجود صنف اور مذہب کی بنیاد پر تشدد اور امتیاز کا سلسلہ جاری ہے۔ مذکورہ قانون کے استعمال کی وجہ سے انسانی حقوق کے کارکنوں کو طویل عرصے تک جیلوں میں رہنا پڑتا ہے۔

مشل ٹیلر نے یہ بھی کہا کہ امریکہ نے بھارت سے جمہوریت، اظہار کی آزادی، تکثیریت اور تحمل کے موضوع پر بات کی ہے۔

بعض ممالک نے بھارت کے شہریت کے ترمیمی قانون (سی اے اے) کا معاملہ اٹھایا جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر ستائے جانے کی وجہ سے بھارت آنے والی اقلیتوں کو جیسے ہندو، سکھ، جین، عیسائی، پارسی اور بودھ افراد کو شہریت دینے کا انتظام ہے۔ اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا۔

اس قانون کے خلاف بھارت میں بڑے پیمانے پر احتجاج بھی ہوا تھا۔

کینیڈانے بھارت میں جنسی تشدد کے تمام واقعات کی تحقیقات، مذہبی تشدد کو روکنے اور مذہبی آزادی کے تحفظ پر زور دیا جب کہ نیپال نے کہا کہ بھارت کو خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد اور امتیاز کے خلاف سختی سے کارروائی کرنا چاہیے۔

برطانوی سفیر سائمن مینلی نے کہا کہ بھارت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ بچوں کی مزدوری اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف قوانین کا مکمل نفاذ ہو۔ چین نے بھی بھارت میں انسانی اسمگلنگ کے انسداد پر زور دیا۔

سعودی عرب اور بھوٹان نے خواتین اور بچیوں کے خلاف جرائم پر اور جرمنی نے غریبوں کے حقوق کا معاملہ اٹھایا۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا نے سزائے موت کو ختم کرنے کی اپیل کی۔

دوسری جانب اجلاس میں غیر سرکاری تنظیموں کے خلاف حکومت کی کارروائیوں پر بھی سوال اٹھائے گئے۔

یاد رہے کہ بھارت کی حکومت نے متعدد نجی تنظیموں کو دیگر ممالک سے فنڈ حاصل کرنے والے قانون ‘ایف سی آر اے’ کی خلاف ورزی کے الزام میں مالی معاونت پر پابندی لگا دی ہے۔

اجلاس میں بھارت کے سولیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے ملک کی نمائندگی کی اور مختلف ملکوں کی جانب سے ظاہر کی جانے والی تشویش کے سلسلے میں حکومت کا مؤقف پیش کیا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور دیگر رضا کاروں کے کاموں کی ستائش کرتا ہے لیکن انہیں ملکی قوانین کی پابندی کرنی ہوگی۔

تشار مہتہ نے سی اے اے کے سلسلے میں کہا کہ یہ قانون خطے میں اقلیتوں کی بہتری کے لیے ہے۔ اس میں تاریخی تناظر کو مدِ نظر رکھا گیا ہے اور یہ قانون دیگر ممالک کے ان قوانین کی مانند ہے، جن میں شہریت کی مخصوص شرائط کی وضاحت کی گئی ہے۔ ان کے بقول یہ قانون کسی شہری کی شہریت نہیں چھینتا۔

اس کے علاوہ تشار مہتہ نے یو اے پی کے غلط استعمال کی تردید بھی کی۔

واضح رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں کی جانب سے بھارتی حکومت پر مذہبی اقلیتوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام لگایا جاتا رہا ہے البتہ حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سابق سربراہ آکا رپٹیل کا کہنا ہے کہ دنیا کے ملکوں نے بھارت میں انسانی حقوق اور دیگر معاملات سے متعلق تشویش کا اظہار کیا ہے اور بھارت سے کہا ہے کہ وہ اپنے معاملات درست کرے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان ملکوں نے بھارت کی حکومت سے کہا ہے کہ وہ آئین میں دیے گئے حقوق کا تحفظ کرے۔ آئین نے مذہبی اقلیتوں کو جو حقوق دیے ہیں حکومت ان کو واپس لے رہی ہے، اس کی پالیسیاں امتیازی ہیں اور حکومت اقلیتوں، خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کو روک نہیں پا رہی ہے۔

تشارہ مہتہ نے این جی اوز سے متعلق تشویش کے بارے میں کہا کہ ان این جی اوز کے خلاف کارروائی کی گئی ہے جو غیر قانونی طور پر فنڈ حاصل کرتی رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں ایک لاکھ سے زائد آزاد سول سوسائٹی ادارے اور نجی تنظیمیں ہیں جو انسانی حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

لیکن آکار پٹیل کہتے ہیں کہ بھارت کے دوست ملک کئی برسوں سے بھارت سے کہہ رہے ہیں کہ این جی اوز کے تعلق سے اس کا رویہ ٹھیک نہیں ہے۔ بھارتی حکومت کو اپنے مؤقف پر اڑے رہنے کے بجائے دوست ملکوں کے خیالات کو سننا چاہیے کیوں کہ جو ملک بھارت میں انسانی حقوق اور دیگر معاملات کو اٹھاتے ہیں وہ بھارت کے دشمن نہیں بلکہ دوست ہیں۔

آکا رپٹیل اس الزام کی تائید کرتے ہیں کہ بہت سے کارکنوں کو یو اے پی اے کے تحت جیلوں میں بند کر رکھا گیا ہے۔ ان کے معاملات پر عدالتوں میں سماعت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ان کو ضمانتیں نہیں مل رہی ہیں۔

ان کے مطابق اگر کسی پر کوئی الزام ہے اور ایف آئی آر درج ہوئی ہے تو اس معاملے کو عدالت میں لے جانا چاہیے۔

خیال رہے کہ متعدد بین الاقوامی اداروں نے بھی اس قانون کے غلط استعمال کا الزام لگایا ہے۔

سزائے موت کے سلسلے میں تشار مہتہ نے کہا کہ بھارت میں شاذ و نادر معاملات میں ہی سزائے موت دی جاتی ہے۔اس سے قبل بھی بھارت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور مذہبی آزادی پر قدغن کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ بھارت کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔

بھارت کا مؤقف ہے کہ خام معلومات کی بنیاد پر ایسے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ بھارت ایک مضبوط جمہوریت ہے اور یہاں انسانی و بنیادی حقوق کے تحفظ کے آئینی انتظامات ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں